06 اکتوبر ، 2023
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے چیئرمین تحریک انصاف نے جو کچھ کیا اس میں کسی نہ کسی اسٹیج پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سےکوئی نہ کوئی ہمدردی رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حمزہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ، چوہدری پرویز الہٰی کا راتوں رات پلٹ جانا، سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ آئِین کی نئی تشریح ہو گئی، جس کے نتیجے میں حمزہ کو جانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ہرطرف کھیل رہی تھی، اکتوبر 2021 میں ان کے آپس میں اختلافات شروع ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی جنرل فیض حمید کو تعینات کرنا چاہتے تھے، یہ جھگڑا آہستہ آہستہ پھیلتا چلا گیا اور انجام عدم اعتماد کے ووٹ پر ہوا، لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں، سب کا ٹارگٹ نومبر 2022 تھا، جس میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہونا تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر عارف علوی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ملاقات کرائی، چیئرمین پی ٹی آئی نے جنرل باجوہ کو کہا کہ تاحیات ایکسٹینشن لے لیں، بس مجھے اقتدار میں واپس لے آؤ۔
ایک اور موقع پر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عثمان ڈار کے گھروالوں کی باتوں میں تضاد ہے، پہلے یہ لوگ آپس میں طے کرلیں کہ انہوں نے عثمان ڈار کو گن پوائنٹ پر گرفتار کرایا ہے یا کوئی اور وجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عثمان ڈارکی والدہ ان کے خلاف الیکشن لڑنا چاہتی ہیں تو سو بسم اللہ، الیکشن لڑیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے نجی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو کے دوران پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 9 مئی کے حملوں کا مقصد فوج پر دباؤ ڈال کر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا تھا۔
پارٹی چیئرمین عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کا منصوبہ چیئرمین پی ٹی آئی کی زیر صدارت زمان پارک میں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے فوج سے ٹکراؤ کی پالیسی کی قیادت کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت دی گئی، حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت خود چیئرمین پی ٹی آئی نے دی۔
عثمان ڈار نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے خود کو گرفتاری سے بچانے کیلئے کارکنوں کی ذہن سازی کی، کارکنوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔