Time 19 اکتوبر ، 2023
صحت و سائنس

وہ غذا جو توند کی چربی گھلانے کے لیے بہترین ہے

ایک نئی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو
ایک نئی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

پیٹ اور کمر کے گرد جمع ہونے والی چربی کو طبی زبان میں ورسیکل فیٹ کہا جاتا ہے۔

توند کی چربی جسمانی چربی کی سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے کیونکہ یہ بہت اہم اعضا کو ڈھانپ لیتی ہے۔

اس چربی کے نتیجے میں امراض قلب، ذیابیطس اور دیگر سنگین طبی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔

مگر مخصوص غذا اور ہلکی پھلکی جسمانی سرگرمیوں سے توند کی چربی کو نمایاں حد تک گھلانا ممکن ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع اس تحقیق میں جائزہ لیا گیا تھا کہ غذا اور ورزش سے کس طرح مردوں اور خواتین میں دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے تحقیق میں 6874 افراد کو شامل کیا گیا جن کی توند نکلی ہوئی تھی۔

تحقیق میں شامل 50 فیصد افراد کو Mediterranean ڈائٹ کا استعمال کرایا گیا جبکہ چینی، بسکٹ، ریفائن ڈبل روٹی، مکھن، کریم، میٹھے مشروبات اور پراسیس گوشت کا استعمال محدود کیا گیا۔

اسپین، یونان، اٹلی اور فرانس جیسے ممالک کے شہریوں کی غذا کو Mediterranean ڈائٹ کہا جاتا ہے، جو پھلوں، سبزیوں، اجناس، گریوں، مچھلی، زیتون کے تیل وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے (سرخ گوشت کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے) جس کو مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس اور موٹاپے کی روک تھام کے لیے بہترین قرار دیا جاتا ہے۔

اس گروپ میں شامل افراد کو روزانہ 45 منٹ یا اس سے زائد وقت تک چہل قدمی کی ہدایت بھی کی گئی۔

دوسرے گروپ کو بھی Mediterranean ڈائٹ کا استعمال کرایا گیا مگر مقدار میں کمی نہیں کی گئی جبکہ ورزش کرنے کی ہدایت بھی نہیں کی گئی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کم مقدار میں غذا کے استعمال اور جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہونے والے افراد کی جسمانی چربی میں دوسرے گروپ کے مقابلے میں نمایاں کمی آئی۔

تحقیق کے مطابق پہلے گروپ کے افراد کی توند کی چربی میں کمی آئی جبکہ دوسرے گروپ کے افراد میں ایسا نہیں ہوا۔

یہ تحقیق اس کے بعد بھی جاری رہی اور 3 سال تک دونوں گروپس کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش اور غذا کی پابندی ختم ہونے پر پہلے گروپ میں شامل افراد کی جسمانی چربی میں دوبارہ اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ دوسرے گروپ میں شامل افراد کے مقابلے میں کم تھا۔

محققین کے مطابق ابھی وہ مزید 3 سال تک ان افراد کے جسمانی وزن اور صحت کا جائزہ لیں گے۔

مزید خبریں :