28 اکتوبر ، 2023
اگر آپ جامعہ کراچی کے طالب علم رہے ہیں تو شاید آپ کو جامعہ میں واقع اس 50 سالہ قدیمی مندر کا علم ہو لیکن بہت سے لوگ اس بات سے نا آشنا ہیں۔
مسکن چورنگی سے جامعہ کراچی میں داخل ہونے والا راستہ فارمیسی اور کیمسٹری ڈپارٹمنٹ سے ہوتا ہوا بلاک جی تک جاتا ہے، اس سیدھی سڑک سے آپ دائیں جانب مڑ کر سرونٹ سوسائٹی میں داخل ہوجائیں گے، یہ جگہ جامعہ کراچی میں کام کرنے والے ہندو، عیسائی اور مسلم ملازمین کے لیے مخصوص ہے جو ایک طویل عرصے سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
ہم جب یہاں پہنچے تو نوراتری کی ساتویں رات تھی لہذا ہندو برادری میں جشن کا سماں تھا، یہاں کے مقامی سلیم کی رہنمائی سے ہم مندر تک پہنچے، سننے میں تو یہ آرہا تھا کہ یہاں رہنے والے لوگ ذرا محتاط اور خشک رویہ رکھتے ہیں لیکن عیسائی مذہب سے تعلق ہونے کے باوجود سلیم نے ہمیں مندر تک پہنچایا جب کہ یہاں کے منتظمین نے بھی ہمارا کھل کر استقبال کیا۔
ایک کمرے پر مشتمل ’جگت دیوی‘ مندر دکھنے میں تو عام سا ہی مندر تھا لیکن اس کی کہانی بڑی دلچسپ تھی۔
ہم نے پجاری شام لال سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے بتایا کہ 1973 میں جگت دیوی مندر کی تعمیر کی گئی تھی جب کہ وہ اس مندر کی تعمیر سے کئی سال پہلے سے یہاں رہائش پذیر ہیں، بلاک جی میں جگت دیوی مندر کے ساتھ راما پیر اور ہنومان مندر بھی موجود ہیں۔
عبادت گاہ یونیورسٹی کے اندر بنانے کی اجازت دینے پرجامعہ کراچی کا احسان ہے: شام لال
شام لال نے بتایا کہ ہندو پنچائت کے تحت اس مندر کی تعمیر کی گئی، یہ مندر یہاں رہنے والے ہندو افراد کے تعاون سے بنایا گیا البتہ جامعہ کراچی کا احسان ہے کہ انہیں اپنی عبادت گاہ یونیورسٹی کے اندر بنانے کی اجازت دی۔
شام لال کا کہنا تھا کہ اس سے قبل وہ عبادت کے لیے کلفٹن میں واقع مندر جاتے تھے جو کہ ان کے لیے کافی مشکل تھا، انہیں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرنا پڑتا تھا۔
اس مندر کی بنیاد شنکر بھائی واگھیلا، ہیرا بھائی واگھیلا، کالی داس مکھواڑے اور کشن ہموسا نے رکھی تھی جو تقریباً 60 سال سے یہاں رہائش پذیر تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مندر کی مزید تعمیر کے لیے وہ جامعہ کراچی کو خط لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے یونیورسٹی سے مندر کی تعمیر کے لیے سامان اندر لانے کی اجازت مانگی ہے اور اس مندر کے اوپر کا حصہ ہندو پنجائت کے تعاون سے ہی بنایا جائے گا۔
جگت دیوی مندر میں نوراتری کے تہوار میں مسلمان بھی شریک تھے
شام لال نے مندر کے اطراف میں رہنے والی مسلمان اور عیسائی کمیونٹی کے رویے کے بارے میں کہا کہ ہمارے تہواروں میں مسلمان سمیت عیسائی سب شریک ہوتے ہیں، وہ ہماری عیدوں میں مبارک باد دیتے ہیں ہم ان کی عید میں شریک ہوتے ہیں البتہ یونیورسٹی کے طلبہ بالخصوص، سندھی، پولیٹیکل سائنس اور میڈیا سائنسس کے اسٹوڈنٹس اکثر اسائنمنٹس کے لیے مندر اور چرچ کا رخ کرتے ہیں۔
’جامعہ کراچی بہت سی تہذیبوں کا ایک تالاب ہے‘
یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ ممبر ڈاکٹر حسان اوج بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کا رشتہ جی بلاک کے رہائشیوں کے ساتھ ایک عرصے سے جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں رہائش پذیر ہندو اور عیسائی برادری سے کافی مانوس ہیں اور اکثر ان کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں۔
یونیورسٹی میں مندر کا ہونا کیسا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر حسان نے کہا کہ جامعہ کراچی سے ہر سال 45 ہزار طلبہ پاس ہوکر نکلتے ہیں وہ بھی ان میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی یہ درسگاہ شعور و آگاہی کا ایک وسیع دروازہ ہے، یہاں مندر بھی ہے، مسجد اور عیسائیوں کا چرچ بھی ہے، یہ سب اگر طالب علم شروع ہی سے دیکھیں گے تو ان کے ذہن میں ان کمیونیٹیز کے متعلق ایک خاکہ بن جائے گا کیونکہ یہاں جو لوگ رہ رہے ہیں وہ پر امن ہیں۔
ڈاکٹر حسان نے یہ بھی کہا کہ نئے ذہن ان کے طور طریقے دیکھیں گے تو انتشار کے خلاف نظر آئیں گے اور ان اقلیتوں کو عزت دینا سیکھیں گے۔