08 نومبر ، 2023
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پارٹی کسی ریاستی ادارے سے لڑنے نہیں جارہی اور سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کے ساتھ آئندہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے دی نیوز کے رابطہ کرنے پر پارٹی کے وکیل بیرسٹر گوہر خان کے اس بیانیے سے پارٹی کی دوری ظاہر کی کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
بیرسٹر گوہر خان نے یہ بات پیر کی رات جیو نیوز کے ایک پروگرام میں کہی تھی۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور عمران خان حکومت میں کابینہ کے رکن علی محمد خان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے رؤف حسن کے بیان کی تائید کی اور کہا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے اور نہ کسی بھی سطح پر قیادت نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہے کہ سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ اختیار کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی الیکشن میں عمران خان کے اس عزم کے ساتھ میدان میں اترے گی کہ ملک کو ریاست مدینہ کے اصولوں کے تحت اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کسی ادارے سے لڑائی نہیں چاہتی، ہم کسی ادارے سے لڑیں گے اور نہ ہمیں ایسا کرنا چاہئے، پی ٹی آئی جمہوری حدود، قانون، آئین اور سویلین آزادی کی حدود میں رہتے ہوئے جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بیرسٹر گوہر خان سے ان کے بیان کے حوالے سے بات کریں گےکیونکہ پارٹی میں کئی لوگوں نے اس بیان کی وجہ سے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی پہلے ہی اپریل 2022ء کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بیانیے کی وجہ سے پیدا ہونے والے منظرنامے کی وجہ سے مسائل کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ اسی وجہ سے 9؍ مئی کا واقعہ ہوا تھا اور اسی وجہ سے پارٹی کیلئے صورتحال تاریک ہوئی۔
نہ صرف پارٹی کے کئی رہنماؤں (بشمول عمران خان کے قریبی ساتھیوں) نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کی بلکہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان، ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی اور صدر پرویز الٰہی جیل میں ہیں۔
کئی دیگر پارٹی رہنما اور پارٹی ورکرز کی ایک بڑی تعداد بھی پولیس یا فوج کی تحویل میں ہے اور 9 مئی کے واقعات، فوجی عمارات بشمول جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس لاہور (جناح ہاؤس)، میانوالی ایئر بیس اور دیگر مقدمات، علامات، تنصیبات وغیرہ پر حملوں کی وجہ سے فوجداری نوعیت کے مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔
جو لوگ پارٹی میں رہ گئے ہیں یا پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں اب وہ ان واقعات اور عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر پچھتاوے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی بیانیے کی وجہ سے وہ صورتحال پیدا ہوئی جس کی وجہ سے عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ گئے اور 9؍ مئی کا واقعہ پیش آیا۔
حکومت اور فوج نے اس دن کو یومِ سیاہ قرار دیا تھا۔ ایسی صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ اختیار کرنا پی ٹی آئی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک نئی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت پہلے ہی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو رابطہ ختم ہوچکا ہے وہ دوبارہ بحال ہو تاکہ نو مئی کے بعد کے واقعات کی پیدا شدہ صورتحال اور حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
پی ٹی آئی مایوسی کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتی ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں پارٹی کیلئے بہتر حالات پیدا ہو سکیں۔