اب دن میں دو تین مرتبہ کے بجائے 'مہینے میں 1 بار' موبائل چارج ہوگا، لیکن کیسے؟

مہینے کے آغاز پر اگر فون کی بیٹری چارج کی جائے گی تو وہ پورا ماہ کم نہیں ہوگی__فوٹو: فائل
مہینے کے آغاز پر اگر فون کی بیٹری چارج کی جائے گی تو وہ پورا ماہ کم نہیں ہوگی__فوٹو: فائل

کیا آپ کو یہ ایک خواب کی طرح لگ رہا ہے کہ اب موبائل فونز دن میں کئی بار چارج کرنے کے بجائے مہینے میں صرف ایک بار چارج کرنا پڑیں گے؟ اگر ہاں، تو جان لیں کہ یہ جلد ممکن ہونے والا ہے۔

برطانوی جریدے ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ایسی مائیکرو چپ پر کام شروع کیا ہے جسے فون میں لگانے کے بعد اسمارٹ فون کو سال میں صرف 12 مرتبہ چارج کرنے کی ضرورت ہوگی۔

یعنی مہینے کے آغاز پر اگر فون کی بیٹری چارج کی جائے گی تو وہ پورا ماہ کم نہیں ہوگی۔

برطانوی ٹیکنالوجی کے وزیر پال سکلی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سیمی کنڈکٹرز جدید دنیا کی ترقی کے لیے ضروری ہیں جو الیکٹرک کاریں چلانے سے لے کر مختلف بیماریوں سے لڑنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

فوٹو: منٹ نیورو
فوٹو: منٹ نیورو

گزشتہ ماہ اکتوبر میں پال سکلی کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس دو سالہ پروجیکٹ  پر 13 لاکھ پاؤنڈز کے اخراجات متوقع ہیں اور  یہ ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگی میں انقلاب لانے والی ہے۔

ڈیل میل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سیمی کنڈکٹر سے متعلق ترقیاتی منصوبے پر کئی برطانوی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں ایک کمپنی ’منی نیورو‘  ہے جس نے مرگی اور پارکنسنز کی بیماری کے علاج میں کامیابی حاصل کی جس کے لیے انہوں نے ایک چِپ ایجاد کی جس کا حجم مرچ کے دانے کے برابر ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وائر کی مائیکرو چِپ جو اسمارٹ فونز کی بیٹری لائف کو بہتر بنا سکتی ہے، کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کے محققین کی ایک ٹیم اس پر کام کررہی ہے، یہ خیال ایک ایسے سلیکون چپ پروسیسر کو ڈیزائن کرنے پر مبنی ہے جسے چلانے کے لیے تقریباً صفر توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی بہتر بیٹری کی ضرورت کم ہے۔

تاہم اس حوالے سے ابھی بہت مختصر معلومات سامنے آئی ہیں، اس پروجیکٹ کو چلانے والے چیف ایگزیکٹیو شان ریڈمنڈ نے کہا ' اگر یہ تجربہ کامیاب رہتا ہے تو یہ ممکن ہو جائے گا کہ موبائل فون کی بیٹری ایک ماہ میں صرف ایک بار ہی چارج کرنا پڑے گی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ  ’آج کی دنیا میں کوئی بھی سیمی کنڈکٹر چپ کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتا تاہم برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی اس ٹیم نے اس بارے میں پیشرفت کی ہے‘۔

مزید خبریں :