Time 08 دسمبر ، 2023
پاکستان

جنرل باجوہ کے بتانے پر عمران نے سائفر کو نظرانداز کیوں کیا؟

ی 11 مارچ 2022ء کو جنرل باجوہ نے یہ معاملہ عمران خان کو پیش کیا تھا لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ فوٹو فائل
ی 11 مارچ 2022ء کو جنرل باجوہ نے یہ معاملہ عمران خان کو پیش کیا تھا لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ فوٹو فائل

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے پاکستانی سفیر کے توسط سے وزارت خارجہ کو سائفر ملنے کے تین دن بعد یعنی 11 مارچ 2022ء کو جنرل باجوہ نے یہ معاملہ عمران خان کو پیش کیا تھا لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔

اسی دن پاک فضائیہ نے باضابطہ طور پر اپنے فلیٹ میں جے ٹین سی لڑاکا طیارہ شامل کیا تھا جس کی تقریب کامرہ ائیر بیس پر ہوئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل باجوہ، ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر، چیف آف نیول اسٹاف امجد خان نیازی، پشاور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور کچھ وفاقی وزراء نے بھی اس تقریب میں شرکت کی تھی۔

ذرائع کے مطابق، تقریب کے دوران جنرل باجوہ کو وزیراعظم سے سائفر اور پاکستانی سفیر کی رائے اور معاملے کی حساسیت کے حوالے سے بات کا موقع ملا۔ تاہم، عمران خان نے اس بات پر زیادہ دھیان نہ دیا جبکہ اعظم خان (اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری) کا بیان دیکھیں تو اس کے مطابق عمران خان سائفر کے ساتھ کھیلنے کے حوالے سے اپنا ذہن پہلے ہی بنا چکے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ کامرہ میں ہونے والی میٹنگ کے چند روز بعد، اسد عمر نے جنرل باجوہ سے ملاقات کی اور عمران خان کی طرف سے انہیں عہدے میں دو سال کی توسیع کی پیشکش کی۔ بعد میں پرویز خٹک نے یہی پیشکش ان تک پہنچائی لیکن غیر معینہ مدت کیلئے، جس کا ذکر گزشتہ سال ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بھی کیا تھا۔

رابطہ کرنے پر اسد عمر نے کہا کہ اب وہ ایک ریٹائرڈ سیاست دان ہیں اور اس معاملے پر بات نہیں کر پائیں گے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ وہ کرکٹ پر ضرور بات کریں گے۔ عمران خان باجوہ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ کسی بھی طرح عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنایا جائے اور اپنی مایوسی میں عمران خان نے 27؍ مارچ کو عوامی اجتماع کے دوران سائفر کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔

26؍ مارچ کو عمران خان نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس میں ایک میٹنگ بلائی جس میں تحریک انصاف کے کچھ اہم وزراء بھی موجود تھے۔ عمران خان اپنی حکومت کیخلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے معاملے پر بات کرنا چاہتے تھے۔

ایک مرتبہ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اُن کے پاس اپوزیشن کی طرف سے تین آپشنز لیکر آئی تھی لیکن در حقیقت آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو سیاسی منظر نامے پر بات کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ یہ ملاقات ہوئی اور سول اور ملٹری قیادت نے مل کر ان تین آپشنز پر بات کی جن میں ’’عدم اعتماد تحریک کا سامنا کرنا‘‘ یا ’’استعفیٰ دینا‘‘ یا پھر ’’قومی اسمبلی تحلیل کرنا‘‘ شامل تھے۔

تاہم، وزیراعظم نے پہلے دو آپشنز مسترد کر دیے اور تیسرے پر راضی ہوئے اور ان کے بقول یہ آپشن قابل عمل تھا۔ ملٹری حکام کو بتایا گیا کہ اس وقت کی اپوزیشن کو قائل کیا جائے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک واپس لیں اور اس کے بدلے میں عمران خان اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔

آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپوزیشن قیادت سے اسی دن ملاقات کی اور بتایا کہ سویلین اور ملٹری قیادت نے تین آپشنز پر بات کی ہے۔ تاہم، اپوزیشن نے اسمبلی کی تحلیل سمیت تینوں آپشنز مسترد کر دیے۔

وزیراعظم کو اپوزیشن کے ’’انکار‘‘ سے آگاہ کیا گیا جس سے عمران خان ناراض ہوگئے اور اس کے بعد انہوں نے سائفر ایشو پر کھل کر کھیلنا شروع کردیا اور حساسیت کا دھیان رکھے بغیر اسے حکومت کیخلاف ’’سازش‘‘ بنا کر پیش کیا۔

مزید خبریں :