09 دسمبر ، 2023
قتل کے ملزم کی دبئی سے پاکستان حوالگی کے کیس میں وزارت خارجہ کے ریمائنڈرز کے باوجود متحدہ عرب امارات کا جواب نہ دینا نارمل پریکٹس یا کمزور سفارتکاری؟
ایک مہینے سے زائد کے انتظار کے بعد 8 دسمبر کو اسٹیٹ لائف انشورنس کے سابقہ ریجنل چیف محمد احمد امجد کے قتل کے ملزم کی دبئی سے پاکستان حوالگی کے کیس سے متعلق سندھ ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی تو توقع کی جارہی تھی کی پاکستان کی وزارت خارجہ ایک جامع پیشرفت رپورٹ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوگی مگر بد قسمتی کے ساتھ وزارت خارجہ کے پاس اس حوالے سے پیشرفت کی کوئی رپورٹ موجود نہیں تھی اور اُس نے ایکسٹراڈیشن کے کیس میں موجودہ التواء کی ذمہ داری متحدہ عرب امارات کے حکام پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ ریمائنڈرز کے باوجود گزشتہ دو مہینوں سے وہاں سے کوئی جواب نہیں آرہا ہے۔
یہ ایکسٹرا ڈیشن کیس ملزم تقی شاہ سے متعلق ہے جو اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور جن پر الزام ہے کہ انہوں نے 2008 میں اپنی اٹیچمنٹ کی درخواست قبول نہ ہونے پر اپنے ہی ریجنل چیف کو اُن کے دفتر میں گھس کر 10 گولیاں مار کر قتل کردیا تھا اور قتل کے فوری بعد ملزم تقی شاہ ملک سے فرار ہوگئے اور 12 سالوں تک اُن کا کچھ پتا نہیں چل سکا اور نہ ہی ریاست نے اس کیس میں انصاف کی فراہمی کیلئے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
اس کیس میں دلچسپ موڑ اُس وقت آیا جب مقتول کی بیٹی ماہم امجد نے 12 سال کی تلاش کے بعد 2020 میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پتا لگایا کہ ملزم اس وقت دبئی میں مقیم ہے اور اس حوالے سے پاکستانی حکام کو خبر دے دی جس کے بعد ملزم کیخلاف ریڈ نوٹس جاری کیا گیا۔
ریڈ نوٹس جاری ہونے کے بعد جنوری 2023 میں متحدہ عرب امارات کے حکام نے پاکستان سے ملزم کی حوالگی کیلئے ایکسٹراڈیشن فائل جمع کروانے کی درخواست کی تھی لیکن تب سے لیکر اب تک جب جب پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ فائل دبئی حکام کے حوالے کی ہے تو انہوں نے اسے نامکمل قرار دیکر واپس کردیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیس میں جو وزارت مصدقہ دستاویزات وزارت خارجہ کو جمع کرانے کی پابند تھی وہ پاکستان کی وزارت داخلہ ہے جو واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ وہ اس کیس میں اپنی طرف سے تمام دستاویزات مکمل کرکے وزارت خارجہ کو فراہم کرچکی ہے۔
جنوری 2023 سے لےکر اگست 2023 تک جب متحدہ عرب امارات نے تین بار پاکستان کی طرف سے جمع کرائی گئی ایکسٹراڈیشن فائل پر اعتراضات لگائے تو ستمبر 2023 کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اعتراضات نمٹا کر ملزم کی حوالگی کیلئے ایکسٹرا ڈیشن فائل دبئی حکام کے حوالے کی ہے اور تب سے لےکر آج تک پاکستان کی وزارت خارجہ کو دبئی حکام نے ریمائنڈرز کے باوجود جواب تک نہیں دیا ہے۔
کل سندھ ہائیکورٹ میں ملزم کی حوالگی کے کیس سے متعلق سماعت ہوئی تو وزارت خارجہ کے ڈپٹی پروٹوکول چیف گیان چند نے عدالت میں تحریری طور پر جمع کرائے گئے اپنے جواب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ابو ظہبی میں ہمارا مشن ملزم تقی شاہ کی حوالگی میں پیشرفت سے متعلق متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ کر رہا ہے، متحدہ عرب امارات کے حکام کے جواب کا اب تک انتظار ہے اور جیسے ہی جواب ملتا ہے تو اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کردیا جائے گا‘۔
اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک ایسا ہی جواب 23 اکتوبر کو بھی اسی عدالت میں جمع کروایا تھا جس کے بعد کیس کی سماعت ایک ماہ سے زائد عرصے تک ملتوی رہی اور اب جب کل ایک بار پھر اس کیس کی سماعت ہوئی ہے تو وزارت خارجہ نے پھر یہی مؤقف اختیار کیا کہ متحدہ عرب امارات کے حکام کی طرف سے جواب کا انتظار ہے۔
وزارت خارجہ کے اس جواب کے بعد عدالت نے اپنا تحریری آرڈر جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے متحدہ عرب امارات کو 3 ریمائنڈرز بھیجے ہیں اور دبئی حکام سے ملاقات کی درخواست بھی کی ہے تاکہ اس معاملے پر بات چیت کی جائے'، عدالت نے اپنے آرڈر میں مزید لکھا کہ ’ہم ایک بار پھر وزارت خارجہ کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو تیزی سے آگے بڑھائے، اگر پیشرفت نہیں دکھائی گئی ہے تو وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری ذاتی طور پر اگلی سماعت میں پیش ہوں اور کیس کی سماعت 3 ہفتوں کیلئے ملتوی کی جاتی ہے'۔
یعنی عدالت نے اگلی سماعت میں اس کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہونے پر وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری کو ذاتی طور پر پیش ہونے کیلئے کہہ دیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ جب اس نمائندے نے اس کیس میں نا سمجھ آنے والے التواء سے متعلق 4 دسمبر کو رپورٹ کیا تھا اور وزارتوں کی اندرونی کمیونیکیشن کی بنیاد پر دبئی میں موجود پاکستانی مشن کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھائے تھے تو 6 دسمبر کو دبئی میں پاکستانی سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن آفاق احمد نے اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے دفتر کو ای میل پیغام بھیجا تھا جسے کل عدالت میں جمع کرایا گیا ہے۔
اُس ای میل کے مطابق’اس کیس کو میڈیا کی توجہ تب حاصل ہوئی جب پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے میزبان شاہ زیب خانزادہ نے 4 دسمبر کو اس حوالے سے 33 منٹ کا پروگرام کیا جس میں ماہم امجد نے الزام لگایا ہے کہ ایکسٹراڈیشن کیس کی فائل میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور فائل کو جمع کرانے سے پہلے ہی اُس میں سے دستاویزات نکالے گئے ہیں، اس کے علاوہ ماہم امجد اسٹیٹ لائف انشورنس، پولیس، ایف آئی اے ، ججز اور ہمارے مشن کیخلاف ٹویٹس کرتی رہی ہیں‘۔
دبئی میں پاکستانی سفارتخانے کی ای میل میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’سفارتخانے نے تقی حیدر شاہ کے کیس کو آگے بڑھانے کیلئے تمام اقدامات اٹھائے ہیں، وزارت خارجہ سے ایکسٹراڈیشن فائل ملتے ہی ہم نے اسے متحدہ عرب امارات کے حکام کے سامنے رکھا تاکہ و ہ اس پر غور کرسکیں اور زیادہ تر ایکسٹراڈیشن کے کیسز میں متحدہ عرب امارات مزید دستاویزات اور معلومات کیلئے انہیں واپس بھیج دیتی ہے اور متحدہ عرب امارات کے کسی بھی سوال پر سفارتخانہ وزارت خارجہ کو وزارت داخلہ کی مشاورت کیساتھ ان بے ضابطگیوں کو دور کرنے کی درخواست کرتا ہےاور کچھ کیسز میں دونوں ملکوں کی جانب سے جواب آنے کیلئے 4 سے 5 مہینے لگ سکتے ہیں۔
مذکورہ متن سفارتخانے کی اُس ای میل کا حصہ ہے جو انہوں نے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دفتر کو بھیجی تھی مگر اس ای میل میں اس چیز کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ایک ایکسٹرا ڈیشن فائل کے سادہ اعتراضات کو دور کرنے کیلئے سفارتخانے کو آخر کتنا وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ یہ معاملہ گزشتہ 11 مہینے سے صرف اس لیے زیر التواء ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات کو لگتا ہے کہ آج تک پاکستان کی طرف سے ملزم کی حوالگی کیلئے مکمل مصدقہ دستاویزات پہنچی ہی نہیں ہیں۔
جنوری 2023میں دبئی کے حکام نے پاکستانی حکام سے ایکسٹراڈیشن فائل مانگی تھی جس پر آج تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے اور اب پاکستان کی وزارت خارجہ کا مؤقف ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ستمبر 2023 سے پاکستان کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست اور ریمائنڈرز کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
دوسری طرف مقتول کی بیٹی ماہم امجد نے سفارتخانے کے پیغام پر رد عمل دیتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ ’میں نے ایف آئی اے اور ججز کیخلاف سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ نہیں کیا ہے لیکن اس کے علاوہ جن جن کیخلاف جو بھی پوسٹ کیا ہے اُس کے پیچھے ٹھوس ثبوت موجود ہیں جو میڈیا ہاؤسز کیساتھ بھی شیئر کیے گئے ہیں۔