موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان: الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے منشور میں کیا پالیسیز رکھی گئی ہیں؟

ملک میں عام انتخابات کا ماحول گرم ہے ، ایسے میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے منشور پیش کیا جاچکا ہے۔

پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی کے اعتبار سے دنیا کے کمزور ممالک میں ہوتا ہے جس کی ایک مثال 2022 میں آنے والے سیلاب سے ملتی ہے جس کی تباہی سے ملک میں تقریباً 3 کروڑ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئی تھیں۔

اس مرتبہ عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے پیش کردہ منشور میں کلائمیٹ چینج پر کیا اہم نکات رکھے گئے ہیں آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔

پیپلز پارٹی

پیپلز پارٹی کے منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے نمٹنے کی بات کی گئی ہے جس میں 30 لاکھ گھروں کی تعمیر بھی شامل ہے ۔گو کہ یہ بات ڈائریکٹ کلائمیٹ چینج سے متعلقہ نہیں البتہ اس کا انڈائریکٹ لنک ضرور ہے ۔ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ اس منشور میں ٹاؤن پلاننگ پر زور دیا گیا ہے ،ساتھ ہی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور یو این لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کے سہارے، موسمیاتی تبدیلی سے منسلک اداروں میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان

ایم کیو ایم پاکستان کے منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے جونکات رکھے گئے ہیں اس میں سب سے اہم فائیو آرس کا فارمولہ ہے ،فائیو آر فارمولا دراصل ایک کمپین ہے جو امریکی کلائمیٹ ایکٹیوسٹ بی جونسن نے اپنی کتاب زیرو ویسٹ ہوم میں متعارف کرائی تھی ۔

اس کمپین کا مقصد انسانوں کی وجہ سے بڑھنے والے فضلے اور اس کے خاتمے، بلکہ اس فضلے کو دوبارہ کار آمد بنانا تھا۔ ایم کیو ایم نے انہی 5 آرس یعنی ریفیوز، ریڈیوس، ری یوز، ری پرپس، ری سائیکل کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کی بات کی ہے ۔ساتھ ہی ڈی فاریسٹیشن، بارش کا پانی محفوظ کرنے، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر قابو پانے کا وعدہ کیا ہے۔

جماعت اسلامی

جماعت اسلامی نے ملک بھر کے سیاحتی مقامات سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے پر زیادہ زور دیا ہے ، وہیں منشور میں پبلک ٹوائلٹس اور وضو خانوں کی تعمیر ، صفائی اور شجر کاری کلچر کو عام کرنے کی بات بھی کی گئی ہے لیکن کلائمیٹ کرائسس سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہے یہ خلا یہاں بھی موجود ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی

استحکام پاکستان پارٹی پہلی مرتبہ عام انتخابات کا حصہ بننے جا رہی ہے ، ان کے منشور میں ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے صرف دو باتیں کی گئی ہیں، ایک شجر کاری اور دوسری نہروں کی صفائی۔

مسلم لیگ ن

تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کو دیکھا جائے تو پی ایم ایل ن کے منشور میں موسمیاتی تبدیلی کو زیادہ جگہ دی گئی ہے ۔اس میں اسموگ فری پاکستان، گورنمنٹ آفسز کو گرین اینرجی پر شفٹ کرنا، کاربن کریڈٹ پالیسی، کلائمیٹ چینج کے نقصانات سے بچانے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اینڈ پلاننگ کی بہتری جبکہ ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی مہم کی بات کی گئی ہے۔

انوائرمنٹولسٹ، کلائمیٹ ایکٹیویسٹس اور اربن پلانرز سیاسی جماعتوں کی ان پالیسز کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

جیو ڈیجیٹل کے رابطہ کرنے پر کراچی کے اربن پلانر محمد توحید کا پاکستان پیپلز پارٹی کے پیش کردہ منشور میں کیے گئے 30 لاکھ گھروں کی تعمیر کے وعدے کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ دعویٰ ماحولیاتی تبدیلی سے ڈائریکٹ کنیکٹڈ تو نہیں لیکن کلائمیٹ چینج سے اس کا بالواسطہ لنک ضرور ہے ۔البتہ عملی طور پر یہ کرنا بہت مشکل ہے.

انہوں نے کہا کہ اس میں یہ بھی واضح نہیں کہ یہ دیہی علاقوں میں ہوگا یا شہری علاقوں میں ۔ دوسری اگر پی پی پی کے دور حکومت کا جائزہ لیا جائے تو کچی آبادی کو ریگیولرائز کرنے کی باتوں کی طرح یہ بھی ہوائی بات ہی معلوم ہوتی ہے۔

ماہرین نے سیاسی جماعتوں کی صفائی اور شجر کاری مہم کو بھی محض ایک وعدہ قرار دیا ہے ۔

کراچی کے اربن فاریسٹر مسعود لوہار نے جماعت اسلامی اور آئی پی پی کی جانب سے کیے گئے شجرکاری مہم کے وعدے کے بارے میں کہا کہ پلانٹیشن کا طریقہ کار صرف پودا لگا کر چھوڑ دینا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک مکمل پلان کی ضرورت ہوتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر کلائمیٹ چینج کے نکات کے ساتھ فائیو آرس فارمولہ کا جو اہم نکتہ ایم کیو ایم پاکستان نے اٹھایا ہے ۔

اس میں فضلے پر قابو پانے سے لے کر قابل استعمال بنانے تک کے تمام مراحل آتے ہیں۔ لیکن کراچی میں تین مرتبہ اقتدار میں آنے والے اس جماعت کے مئیرز شہر کو گندگی اور کچرے سے پاک نہیں کر سکے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ویسٹ کنڑول اسٹریٹیجی عوام میں شعور پیدا کرنے سے لے کر اسٹرکچر بنانے تک ایک طویل پلان ہے ۔جس میں لینڈ فل سائٹس، انڈسٹریئل ویسٹ اور دیگر تمام چیزوں پر کام کرنا ہوگا ۔

ماہرین کے مطابق تمام اسٹریٹیجیز کے ساتھ اس وعدے کو پورا کیا جائے تو بھی 5 سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا۔

جہاں تک پی ایم ایل ن کی کاربن کریڈٹ پالیسی اور تمام سرکاری دفاتر کو گرین اینرجی پر شفٹ کرنے کی بات ہے تو اس بارے میں اسلام آباد کی کلائمیٹ ایکٹیوسٹ سیدہ کشمالہ کا کہنا ہے کہ پاکستان فقط مینگروز کے ذریعے کاربن کریڈٹ حاصل کر رہا ہے۔

اس پالیسی پر عملدرآمد کرانے کے لیے مینگروز کی کٹنگ اور ان کی جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیرات کو روکنا ہوگا لیکن حکومت میں آنے کے بعد کیا ایسا کرنا آسان ہوگا؟ وہیں تمام سرکاری دفاتر کو گرین اینرجی پر شفٹ کرنے کی بات بھی ناممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔

ائیر کوالٹی بہتر بنانے کے دعوؤں پر کراچی دریا لیب کے یاسر حسین نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ لاہور فضائی آلودگی میں سب سے آگے ہے جس پر قابو پانے کے لیے ای وی یعنی الیکڑک وہیکل کا استعمال عام کرنا ہوگا ۔نگران حکومت نے یہ شروع تو کیا ہے لیکن مستقبل میں آنے والے کیا کرتے ہیں یہ دیکھنا ہے ۔

اسموگ پر قابو پانے کے لیے گاڑیوں کا دھواں اور ایگریکلچر ویسٹ کو کنٹرول کرنا ضروری ہے ۔ وہیں جنگلات کی دیکھ بھال انتہائی اہم ہے جس پر توجہ نہیں دی جاتی اور وائلڈ لائف اس سے متاثر ہوتی ہے۔

البتہ منشور میں ارلی وارننگ سسٹم کو ایکٹیویٹ کرنا مشکل نہیں اور اس پر کام ہوسکتا ہے تاکہ بر بروقت قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے سے نمٹا جاسکے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں کلائمیٹ سیکشن میں جس طرح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے پولیٹیکل پارٹیز پر 2022 کے سیلاب کے بعد مغربی ممالک کا پریشر ہے البتہ کلائمیٹ چینج کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے عوام کی صحت اور کاروبار دونوں کا تعلق ہوتا ہے۔

مزید خبریں :