مارچ کا وہ دن جب دنیا بھر میں دن اور رات کا دورانیہ برابر ہو جاتا ہے

ر سال 19 سے 21 مارچ کے درمیان اعتدال ربیعی کا آغاز ہوتا ہے / فوٹو بشکریہ live science
ر سال 19 سے 21 مارچ کے درمیان اعتدال ربیعی کا آغاز ہوتا ہے / فوٹو بشکریہ live science

ہر سال مارچ کے دوسرے عشرے کے اختتام پر عیسوی کیلنڈر کے مطابق شمالی نصف کرے میں موسم بہار جبکہ جنوبی نصف کرے میں خزاں کا آغاز ہوتا ہے۔

ویسے تو حالیہ برسوں میں موسم بہار کا دورانیہ گھٹ گیا ہے مگر پھر بھی ہر سال 19 سے  21 مارچ کے درمیان اعتدال ربیعی یا Spring Equinox کا آغاز ہوتا ہے۔

یہ وہ موقع ہوتا ہے جب سورج شمال کی طرف جاتے ہوئے خط استوا کے اوپر سے گزرتا ہے۔

ہماری زمین سورج کے گرد گھومتے ہوئے مدار میں ایک جانب جھکتی ہے جس کے نتیجے میں سال میں کچھ مواقعوں پر سورج کی روشنی اور حرارت زیادہ یا کم مقدار میں براہ راست ہمارے سیارے تک پہنچتی ہے۔

اعتدال ربیعی کے موقع پر چونکہ سورج خط استوا کے اوپر ہوتا ہے تو دنیا میں لگ بھگ ہر جگہ سورج کی روشنی یکساں مقدار میں پہنچتی ہے۔

یعنی اس موقع پر دن اور رات کی لمبائی بھی لگ بھگ یکساں ہوتی ہے یعنی 12، 12 گھنٹے۔

دن اور رات کی لمبائی کا یہ سلسلہ اعتدال ربیعی کے بعد بھی چند دن تک برقرار رہتا ہے۔

اس سال اعتدال ربیعی کا آغاز 19 مارچ (پاکستانی وقت کے مطابق 20 مارچ کو صبح 8 بج کر 06 منٹ) کو ہوگا۔

ایسا ہی ستمبر میں بھی ہوتا ہے جب اعتدال خریفی یا September equinox کا آغاز ہوتا ہے۔

دن اور رات کا دورانیہ مارچ اور ستمبر میں یکساں ہو جاتا ہے (مگر کچھ خطوں میں ایسا نہیں ہوتا)۔

لفظ equinox کا مطلب ہی مساوی رات ہے۔

اعتدال ربیعی کے بعد سے شمالی نصف کرے میں دن طویل اور راتیں چھوٹی ہونے لگتی ہیں اور یہ سلسلہ خط سرطان یا Summer Solstice تک جاری رہا ہے۔

واضح رہے کہ جون میں خط سرطان یا Summer Solstice کا آغاز ہوتا ہے جبکہ دسمبر میں راس الجدی یا winter solstice کا آغاز ہوتا ہے۔

خط سرطان کا آغاز سال کے طویل ترین دن سے ہوتا ہے جس کے بعد دن کا دورانیہ گھٹنے لگتا ہے جبکہ راس الجدی کا آغاز سال کے مختصر ترین دن سے ہوتا ہے جس کے بعد دن کا دورانیہ بڑھنے لگتا ہے۔

زمانہ قدیم میں موسموں کا اندازہ اعتدال ربیعی، اعتدال خریفی، خط سرطان اور راس الجدی سے لگایا جاتا تھا۔

واضح رہے کہ جنوبی نصف کرے میں اس سے الٹ ہوتا ہے، یعنی وہاں اب دن کا دورانیہ گھٹنے جبکہ رات کا بڑھنے لگے گا۔

مزید خبریں :