21 ویں صدی کے خاتمے تک تمام ممالک میں شرح پیدائش میں واضح کمی آئیگی: تحقیق

مستقبل میں شرح پیدائش اور زندہ افراد دنیا کی معیشت اور بین الاقوامی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیں گے اور معاشروں کو تبدیل کر دیں گے: تحقیق. فوٹو فائل
مستقبل میں شرح پیدائش اور زندہ افراد دنیا کی معیشت اور بین الاقوامی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیں گے اور معاشروں کو تبدیل کر دیں گے: تحقیق. فوٹو فائل

حال ہی میں ہونے والی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس صدی کے آخر تک دنیا کے ہر ملک میں شرح پیدائش سکڑ کر اس قدر کم ہو جائے گی کہ ممالک کیلئے اپنی آبادی کا تناسب برقرار  رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

برطانوی جریدے LACENT میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 21 ویں صدی تک دنیا کے 204 میں سے 198 ممالک میں شرح پیدائش کم ہو جائے گی اور پیدائش کی زیادہ شرح صرف غریب ممالک میں ہو گی۔

واشنگٹن کے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن انسٹیٹیوٹ کے مطابق سن 2100 میں ہر دو میں سے ایک بچہ افریقی صحرائی ممالک میں پیدا ہو گا، صومالیہ، ٹونگا، نگر، چاڈ، سماؤ اور تاجکستان جیسے ممالک اپنی آبادی کو کنٹرول رکھ سکیں گے۔

تحقیق میں شامل مرکزی سائنسدان نتالیہ وی بھٹہ چار جی کا کہنا ہے کہ اس میں بہت سے راز پوشیدہ ہیں، مستقبل میں شرح پیدائش اور زندہ افراد دنیا کی معیشت اور بین الاقوامی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیں گے اور معاشروں کی از سر نو تشکیل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے میں کہ جب عالمی سطح پر مہاجرین کی شناخت کا مسئلہ ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور معاشی ترقی کے لیے مہاجرین کے معاملے پر سخت مقابلہ جاری ہے، افریقی صحرا میں بچوں کی پیدائش کی شرح تیزی سے جاری ہے۔

تحقیق کے مطابق آبادیاتی تناسب کے باعث پیدائش میں اضافے اور کمی کا فرق اس قدر واضح ہو جائے گا کہ امیر ممالک کو معاشی ترقی برقرار  رکھنے اور غریب ممالک کو بڑھتی ہوئی آبادی کو سہولیات دینے جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔

تحقیق میں شامل ایک اور سائنسدان آسٹن ای شوماچر کے مطابق افریقی صحرائی ممالک کے لیے آبادی بڑھنے کے باعث سب سے بڑا چیلنج انسانی تباہی جیسے عناصر کو روکنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ شرح پیدائش میں اتنی بڑی تبدیلی اس بات کی ضرورت پر زور دیتی ہے کہ خطے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، ہیلتھ کیئر انفرا اسٹرکچر میں بہتری اور شرح اموات میں کمی کو روکنے کے حوالے سے بتایا جائے۔ اس کے علاوہ غربت کے خاتمے اور خواتین کے تولیدی حقوق کو یقینی بنانے کے ساتھ فیملی پلاننگ اور بچیوں کے لیے تعلیم ہر حکومت کی ترحیج ہونی چاہیے۔

نوٹ: اس تحقیق کے نتائج مختلف سرویز، مردم شماری کے اعداد و شمار اور گلوبل برڈن آف ڈیزیزز، انجریز اینڈ رسک فیکٹر اسٹڈی میں 1950 سے 2021 تک حاصل معلومات اور 150 ممالک کے 8000 سائنسدانوں کے ایک دہائی پر مشتمل مشاہدات سے لیے گئے ہیں۔

مزید خبریں :