Time 22 ستمبر ، 2024
پاکستان

سندھ میں معیار تعلیم کی بہتری کیلئے لاکھوں ڈالر قرض لینے کے باوجود طریقہ کار نہ بن سکا

سندھ میں سیکنڈری ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے 75 ملین ڈالر کا بیرونی قرض لینے کے باوجود کوئی طریقہ کار نہ بن سکا۔

 سندھ معیار تعلیم میں پیچھے کیوں ہے؟  جیو نیوز  نے وزارت منصوبہ بندی کی اس سال کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رپورٹ پر  یہ جاننے کے لے تحقیق کی تو کئی انکشافات سامنے آئے۔

صوبے میں سیکنڈری ایجوکیشن کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے  پچھتر ملین ڈالر کا بیرونی قرض لینے کے باوجود میکنزم نہ بن سکا۔ سندھ سیکنڈری  ایجوکیشن امپروومنٹ پروجیکٹ  پر خرچ کی گئی 25 کروڑ سے زائد رقم صرف گاڑیوں ، فرنیچر اور مشینری کی خریداری پر خرچ کردی گئی۔

سندھ میں سیکنڈری نظام تعلیم کو اپ گریڈ کرنے کے لیے  ایشین ڈیولپمنٹ بینک ( اے ڈی بی) اور سندھ حکومت میں معاہدہ ہوا  جس کے تحت  اے ڈی بی نے 75 ملین ڈالر قرض کی منظوری دی جب کہ اس میں سندھ حکومت کا حصہ 7 اعشاریہ 5 ملین ڈالر ہے۔ یوں پروجیکٹ کی مجموعی لاگت 82.5 ملین ڈالر بنتی۔ اس منصوبے کے تین مقاصد طے کیےگئے۔

پہلا صوبے کے 160 سیکنڈری اسکولوں میں نئی تعمیرات کرنا تھا۔ دوسرا سائنسی مضامین ، امتحانی طریقہ کار اور نتائج سے متعلق عملے کی تربیت کرنا تھا اور تیسرا صوبے کے تمام سیکنڈری بورڈز میں جدید آٹومیٹڈ گریڈنگ سسٹم کا نفاذ کرنا تھا۔

اگست 2023 کو منعقدہ بریفنگ سیشن میں حکومت سندھ نے پروجیکٹ کی پروگریس رپورٹ دی جس میں دعویٰ کیا کہ  او ایم آر مشینیں خرید کر تمام سیکنڈری بورڈز کو مہیا کردی گئی ہیں جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی پروکیورمنٹ رپورٹ کے مطابق او ایم آر مشینوں کا کنٹریکٹ ابھی مکمل نہیں ہوا۔

سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے 100  اسکولوں سمیت 400 دیگر اسکولوں کے لیے مئی 2023  تک 100 لیب کے آلات مہیا کیےگئے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی دستاویزات  میں صرف 100  ایس ای ایف اسکولوں کو لیبارٹری کے آلات مہیا کرنے کا ذکر ہے۔

پروجیکٹ سے متعلق سندھ حکومت کے دیگر دعوؤں کے مطابق دو فرمز کو تعمیرات جبکہ تین اداروں کے جوائنٹ وینچر کو اساتذہ و عملے کی تربیت اور  او ایم آر مشینوں کی تنصیب کا کنٹریکٹ دیا گیا۔

اب تک صرف ایک ویب سائٹ کا قیام عمل میں آیا جب کہ پروجیکٹ کے لیے کنسلٹنسی،  اسٹاف کی بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں۔ اسی طرح 160 میں سے 120 اسکولوں کے نئے بلاکس کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی ہے۔

صوبائی بجٹ میں اس پروجیکٹ پر خرچ کی گئی رقم کا جائزہ لیں تو وہ 25 کروڑ 58 لاکھ روپے کے قریب بنتی ہے جو سندھ حکومت کے دعوؤں کا عشرے عشیر بھی نہیں۔

پروجیکٹ پر اب تک خرچ کی گئی رقم کی تفصیل کے مطابق تین گاڑیوں کی مد میں 92 ہزار 225 ڈالر، فرنیچر کی خریداری اور مرمت کی مد میں 26 ہزار 371 ڈالر، پاور جنریٹرکی مد میں 15 ہزار 182 ڈالر اور  ایئرکنڈیشنر کی مد میں 9931 ڈالرخرچ ہوئے۔ باقی خرچہ تنخواہوں یا پروجیکٹ کی آپریشنل کاسٹ کی مد میں ہوا ہے۔

 رپورٹ میں پروجیکٹ کے تحت کسی نئے اسکول کی تعمیر  یا نصاب میں تبدیلی سے متعلق کسی کام کا ذکر موجود نہیں۔

سابق رکن سندھ اسمبلی رابعہ نظامی نے پروجیکٹ میں سست روی پر ایشیائی ترقیاتی بینک کو کھلا خط لکھ کر نشاندہی کی ہے کہ منصوبے میں تاخیر سے کرپٹ عناصر کو فائدہ ہو رہا ہے۔

صوبائی وزیر یونیورسٹی اینڈ بورڈز محمد علی ملکانی کا کہنا ہے کہ منصوبے پر کام جاری ہے اور  اگلے سال تک امتحانات آٹو میٹیڈ سسٹم کے تحت لیے جائیں گے۔

اس منصوبے میں سجاول سمیت دس اضلاع پر فوکس کیا گیا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کی ڈسٹرکٹ انڈیکس رپورٹ میں ضلع سجاول تعلیمی اعتبار  سے 10  پست ترین اضلاع میں شامل ہے جہاں نہ تعلیم ہے نہ تعلیمی انفرااسٹرکچر۔

اس حوالے  سے جیونیوز  نے ایشیائی ترقیاتی بینک کو خط بھی لکھا ہے جس میں منصوبے سے متعلق مختلف سوالات پوچھے گئے ہیں۔ جیونیوز شعبہ تعلیم میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور کرپشن میں ملوث عناصر اور  اس حوالے سے مزید حقائق سامنے لائے گا۔ 

مزید خبریں :