26 دسمبر ، 2024
پاکستان کے شمالی کونے پر واقع ضلع چترال اپنی خوبصورتی اور تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
راولپنڈی موٹر وے سے گاڑی کا سفر طے کرتے ہوئے آپ 8 گھنٹے میں چترال پہنچ سکتے ہیں لیکن اگر چترال کا سفر کرنے کا ارادہ ہے تو اس کا دل کہے جانے والی وادی، آیون کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
وادی آیون لواری ٹنل سے تقریباً 2 گھنٹے کے فاصلے پر واقع ایک ایسی وادی ہے جو خوبصورت مناظر مثلاً چشموں، پہاڑوں اور حسین درختوں میں چھپی ہوئی ہے۔اس وادی کو کیلاش کا داخلی راستہ بھی کہا جاتا ہے۔
آیون ایک ایسا گاؤں ہے جہاں ہندوکش کے پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوئے دکھائی دیں گے، قد آور پہاڑوں سے ہوتا ہوا راستہ رات کی تاریکی میں اگر چہ خطرناک دکھائی دیتا ہے لیکن چمکتے ستارے اور اندھیری رات اس ماحول کو رومانوی بھی بنادیتے ہیں۔
وادی آیون میں واقع 100 سال پرانی عمارت آیون فورٹ شاہی خاندان کی بچی ہوئی ایک نشانی ہے جسے اب گیسٹ ہاؤس میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔
شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے مقصود الملک بیٹے عمار الملک کے ساتھ اپنے اس خاندانی ورثے کو سنبھالنے کے ساتھ سیاحوں کی توجہ بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔
مقصود الملک کے دادا شجاع الملک چترال کے آخری حکمران تھے جنہوں نے 1895 سے 1936 تک اس خطے پر حکمرانی کی۔ اپنی 16 اولادوں کے درمیان زمینوں کی تقسیم میں آیون ’بلاوشٹ‘ کی زمین سب سے چھوٹے بیٹے کو دے کر انہوں نے اسے بسانے اور سنوارنے کی ذمہ داری بھی انہیں سونپ دی تھی۔
جیو ڈیجیٹل کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں مقصود الملک نے اپنے خاندان اور آیون فورٹ کے بارے میں بتایا کہ ’ہمارا خاندان پاکستان بننے سے قبل کئی سو سالوں تک چترال پر حکمران رہا ہے، ہمارا شجرہ امیر تیمور سے ملتا ہے جو ایک مسافر کی حیثیت سے ہیرات سے چترال کی طرف آیا، یہاں کے مقامیوں میں شادی کی اور یہیں باقی زندگی بھی گزاری اور اس زمین پر حکمرانی بھی کی جو ان کی اولادوں میں آگے بڑھی اور اس کی ایک کڑی میرے والد، بھی ہیں جنہیں آیون کی زمین ورثے میں ملی تھی‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان بننے سے قبل بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں، چترال بھی ایک ایسی ہی ریاست تھا، یہاں آپ کو بہت سے انتظامی اور شاہی قلعے ملیں گے جو ہمارے خاندان کے افراد سے وابستہ ہیں۔ شروع میں ہمارا خاندان چترال کے بڑے قلعے میں رہائش پذیر تھا۔ یہیں میرے والد کی شادی ہوئی اور وہ 1920میں چترال کے قلعے سے وادی آیون کے اس قلعے میں میری والدہ اور اس خطے کو بسانے کی ذمہ داری کے ساتھ آباد ہوگئے۔
نظاروں کی بات کریں تو اس گیسٹ ہاؤس سے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں سب سے بلند پہاڑ ’تریچ میر‘ کی چوٹی کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے جو سطح سمندر سے 7708 میٹر بلند ہے، اس چوٹی کو سب سے پہلے 1950 میں ناروے سے آنے والے کوہ پیما نے سر کیا تھا، جبکہ اس چوٹی سے پریوں اور جنات کی بھی کئی کہانیاں وابستہ ہیں ۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ تریچ میر کی چوٹی پر پریوں کا بسیرا ہے۔
اگر آیون سے آپ تریچ میر کے بیس کیمپ تک جانا چاہیں تو 8 گھنٹے اور اس سے زائد بھی لگ سکتے ہیں۔
اس گیسٹ ہاؤس کے گارڈن میں سیاحوں کو دنیا کے سب سے قد آور اور پرانے درخت بھی ملیں گے، لیکن یہ درخت یہاں کس طرح لگائے گئے اس بارے میں مقصود الملک نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ اس باغ میں ہم نے دنیا کا سب سے بڑا درخت سیکویا بھی لگایا ہوا ہے جو آئر لینڈ میں مقیم ہماری ایک دوست کانٹیس آف راس نے بھیجا تھا، کیلیفورنیا میں تو یہ درخت اتنے بڑے ہیں کہ ان کے اندر ٹنل بنی ہوئی ہے اور گاڑیاں اس کے اندر سے گزرتی ہیں، یہاں انہیں لگے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا لیکن جلد یہ بھی بڑے ہوجائیں گے۔
مقصود الملک نے مزید بتایا کہ ان کی دوست کانٹیس آف راس کا آئر لینڈ میں ایک قلعہ ہے جس میں 22 ایکڑ پر مشتمل گارڈن کا چوٹھا سا حصہ انہوں نے ’چترال‘ کے نام سے وقف کیا ہوا ہے، اکثر دونوں دوستوں کے درمیان درخت بطور تحفہ بھیجنے کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
دنیا کے قدیمی درختوں میں شمار کیا جانے والا درخت گنکو بلوبا بھی آیون فورٹ میں سانسیں لے رہا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے پرانا درخت ہے۔
مقصود الملک نے کہا کہ ’کہتے ہیں اس کے پتے اگر پانی میں ڈال کر، پانی پئیں تو عمر بڑھتی ہے‘۔
انہوں نے یہ کہہ کر ساتھ ہی ویپنگ ویلو نامی درخت کے بارے میں کہا کہ ’ چترال میں ویپنگ ویلو آپ کو بہت زیادہ ملیں گے، جو ہم نے لگائے ہوئے ہیں یہ درمیانے درجے کے ہیں لیکن کچھ اتنے قد آور ہیں کہ ان کی ڈالیں زمین پر کئی دور تک پھیلی ہوئی ہیں، اس درخت کی کہانی بھی عجیب ہے‘۔
مقصود الملک نے بتایا کہ ’انگریزوں نے اس کا نام ویپنگ ویلو رکھا اور فارسی میں اسے ’بید مجنون‘ کہا گیا یعنی مجنوں کی زلفیں، اپنا اپنا دیکھنے کا کمال ہے انگریزوں نے اسے غم سے تشبیہ دی اور فارسی میں یہ رومانوی تصور کیا گیا‘۔
آج گیسٹ ہاؤس کی صورت میں نظر آنے والی اس 100 سالہ پرانی عمارت، جو کھبی قلعہ کی شکل میں 80 افراد کی رہائش گاہ اور مسافروں کی عارضی قیام گاہ ہوا کرتی تھی اونچی دیواروں پر مشتمل تھی لیکن پھر 2002 میں اس عمارت کی دیواروں کو گرا دیا گیا۔
اس بارے میں جب جیو ڈیجیٹل نے عمار الملک سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’زلزلے کے اعتبار سے یہ خطہ کافی خطرناک مانا جاتا ہے، اور ایسا ہے بھی۔ کیونکہ مٹی سے بنے ہونے کی وجہ سے قلعے کی دیواریں بوسیدہ ہوگئیں تھیں اور ہمیں ڈر تھا کہ کہیں گر نہ جائیں تو ہم نے مکمل طور پر ان دیواروں کو گرا دیا تاکہ یہاں قیام کرنے والے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوسکیں‘۔
6 کمروں پر مشتمل اس گیسٹ ہاؤس میں آج بھی لکڑی اور پھتروں کی نقش و نگاری دیکھی جاسکتی ہے جو کہ چترال کی ثقافت کا حصہ مانی جاتی ہے۔
عمار اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’ہم نے گیسٹ ہاؤس میں زیادہ تر پلرز اور سجاوٹ پرانی ہی رکھی ہوئی ہے تاکہ ماضی ہمارے حال کا حصہ رہے، یہاں زمین کی کھدائی کے دوران 2 پاٹس دریافت ہوئے جو ہمارے ڈائیننگ ہال میں رکھے ہوئے ہیں، ساتھ ہی جو شیشہ کھانے کی میز کے اوپر لگا ہوا ہے اس میں پہاڑوں کا منظر دیکھا جاسکتا ہے، یہاں آپ ہر طرف سے پہاڑوں کا نظارہ کرسکتے ہیں چاہے آپ اندر ہی کیوں نہ ہوں‘۔
پاکستان سے جڑنے کے بارے میں عمار اور ان کے والد کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم کے اصرار و کوشش کے نتیجے میں چترال پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان نے پاکستان کا حصہ بننے کو بہتر جانا اور ان کی اولادیں اس پر فخر محسوس کرتی ہیں اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو شاید آج یہ خطہ افغانستان کا حصہ ہوتا اور لوگ مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہوتے۔