Time 30 جنوری ، 2025
پاکستان

مختلف رنگوں اور تہذیبوں كا شہر كراچی، ہجرت كے بعدكيسے تبديل ہوا؟

1947 میں برصغير ميں رونما بونے والی سب سے بڑی تبدیلی ہندوستان كی تقسيم اور پاكستان كے قيام كی صورت ميں پيش آئی، ہندوستان سے ہجرت كركے پاكستان آنے والے مہاجرين نے جب شہر قائد ميں دستک دی تو شہر كی تعمير و ترقی، ادب و ثقافت ميں مختلف برادریوں نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے شہر قائد كی تصوير كو مزيد دلكش بناديا۔

ان برادریوں ميں پارسی، يہودی، بوہرہ، ميمن اور دیگر شامل ہیں، جنہوں نے ناصرف شہر کے نقشے کو تبدیل کیا بلکہ تعلیم سماجی و فلاحی امور کو بھی سنوارا  اور کراچی کے انفرااسٹکرچر کو  بدلنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

کراچی کے ٹی ڈی ایف گھر میں ہجرت کے بعد شہر  میں آنے والی تبدیلی کے موضوع پر نمائش کا انعقاد کیا گیا، جس میں ان برادریوں کا کراچی کی فلاح و بہبود میں کردار اور مہاجرین کا تہذیب و ثقافت میں عمل دخل مرکزی پہلو رکھا گیا تھا۔

جیو ڈیجیٹل سے گفتگو كرتے ہوئے ٹی ڈی ایف گھر کی  انچارج كميونيكيشن حبا زبیری نے بتايا کہ اس نمائش كا مقصد نئی نسل كو ماضی سے جوڑنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس نمائش کے ذریعے یہ بتانےکی کوشش کی ہے کہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں کراچی کی تصویر کیسی تھی، جب پاکستان وجود میں آیا تو بہت سی برادریوں نے یہاں آکر کراچی میں اپنی زندگی کو آگے بڑھایا، پی آئی بی کالونی، کورنگی، لانڈھی، ناظم آباد، ائیرپورٹ اور دیگر علاقوں میں کیمپس کی صورت پناہ لینے مہاجرین نے کیسے ایک نئی زندگی کی شروعات کی، ان کے حالات و واقعات کیا رہے یہ سب اس نمائش کے ذریعے پیش کیا گیا ہے‘۔

نمائش 3 کمروں پر مشتمل ٹی ڈی ایف گھر کی اوپری منزل میں سجائی گئی ۔ اس منزل کے داخلی دروازے سے بائیں جانب پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے کی طرف 1947 آویزاں تھا جو کارڈ بورڈ سے بنایا گیا تھا، دلچسپ بات اس پر پڑی ہوئی رسی تھی جو مہاجرین کے سفر کی جھلک پیش کررہی تھی، اس کمرے میں مہاجرین کی آپ بیتی اور کٹھن حالات کو بینرز کی صورت چھت سے لٹکایا گیا تھا جب کہ دیوار پر پروجیکٹر کی مدد سے  بھارت سے آنے والوں کے انٹرویوز بھی پیش کیےگئے تھے۔

البتہ نمائش کا سب سے دلچسپ منظر دوسرا اور تیسرا کمرہ پیش کر رہا تھا ۔

حبا زبیری نے بتايا کہ ’ہم نے پہلے کمرے میں مہاجرین کا پاکستان آنا، قیام اور ان کے رہائشی معاملات کو دکھایا ہے، دوسرے کمرے میں ہم نے مختلف کمیونٹیز کے کردار کو ہائی لائٹ کیا ہے، شہر کے آرکیٹیکٹ، تعلیم اور ثقافت میں بوہری، میمن، پارسی اور  یہودی کمیونٹیز نے کس طرح حصہ لیا، ایدھی صاحب کی تصویر میمن برادری کی ترجمانی ہے، جنہوں نے شہر کے سماجی و فلاحی بہبود میں حصہ ڈٓالا'۔

حبا زبیری نے مزید کہا کہ یہ ایک طرح کا خراج تحسین بھی ہے ان کمیونٹیز کو جنہوں نے کراچی کو ایک حسین شکل دی اس میں دیگر برادریاں بھی شامل ہیں۔

تیسرے کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے خیمہ، چارپائی، تانگے کا پہیہ، صندوق، اور دیگر پرانا سامان نظر آیا، یہاں چارپائی کے سرہانے اسپیکر پر قائد اعظم کی پاکستان بننے کے بعد کی جانے والی تقریر بھی چل رہی تھی جب کہ بڑے بورڈز پر نامور مصنفین و شعرا کے آزادی پر لکھے کلام بھی آویزاں تھے، ان میں سعادت حسن منٹو، ساحر لدھیانوی اور فیض احمد فیض کے کلام و تحریریں شامل تھیں۔

جیو ڈیجیٹل کی جانب سے اس کمرے کے بارے میں پوچھنے پر حبا نے بتایا کہ یہ کمرہ مہاجرین کے قیام کا منظر پیش کررہا ہے، یہاں دیوار کی جانب پرانے کپڑے بھی لٹکائے گئے ہیں جن سے محسوس کیا جاسکے کے آنے والوں نے کیسے ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔

نمائش میں ماضی کی جھلک دکھانے کے لیے پرانا ٹی وی، ٹیلی فون، ٹائپ رائٹر اور ریڈیو بھی رکھا گیا تھا ۔

’کراچی والا، سبکانٹینینٹ ود ان آ سٹی‘ کے نام سے کراچی پر کتاب لکھنے والی مصنفہ رومانہ حسین بھی اس نمائش کو دیکھنے آئیں۔

 جیو ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی وہ واحد شہر ہے جس میں اتنی کمیونٹیز رہتی ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں نہیں معلوم کے یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، ان کا عقیدہ، رسم و رواج کیا ہیں؟ ان کمیونٹیز کی تاریخ کو محفوظ کرنا بے حد ضروری ہے۔

رومانہ حسین نے عمارتوں کے بارے میں شکوہ بھی کیا کہ شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت شہر کی تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ٹی ڈی ایف گھر بھی ایک قدیمی عمارت ہے، کراچی میں ایسی بہت سی عمارتیں ہیں، ہم کمیونٹیز تو کیا ان عمارتوں پر بھی توجہ نہیں دیتے، ہم اپنے تاریخی ورثے کو جدید بلڈنگز  اور  پلازوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ ہم چاہے کتنا بھی شور کرلیں لیکن جب تک شہر سے محبت نہ ہو، اسے سنوارنے کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا، اس احساس و محبت کی بہت کمی ہے‘۔

پاکستان کتنی جدوجہد و قربانی سے بنا اور یہاں آکر بسنے والے اپنا سب کچھ چھوڑ کر کس طرح آباد ہوئے ؟

نئی زندگی کی شروعات و ہجرت کو قریب سے دیکھنے والی عائشہ اسلم نے جیو ڈیجیٹل سے جب گفتگو کی تو اس وقت کا ذکر کیا جب ہزاروں قافلے بھارت کی سرزمین سے روانہ ہوکر پاکستان پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ’میں یہ نمائش دیکھ کر خود کو پھر سے پانچ سال کا محسوس کررہی ہوں۔ آج بھی میرے ذہن میں آزادی کے لیے کیے جانے والے اپنے والدین، بہن بھائیوں کے سفر کے مناظر تازہ ہیں۔ ہم نے پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا بلکہ یوں کہہ لیں دیکھ کیا سکتے تھے، جس ٹرین میں میرٹھ سے سفر شروع کیا وہ لاہور آنے تک مسلسل فائرنگ کا شکار رہی، والدہ مجھے اور بہن بھائیوں کو بار بار کہتی تھیں آنکھیں بند کرکے نیچے لیٹے رہو۔ جب لاہور آیا تو سمجھیں تب آنکھیں کھولیں اور پاکستان دیکھا، لیکن آنے کے بعد بھی حالات کوئی خاصے اچھے نہ تھے‘۔

انہوں نے بتایا کہ  پھر ہم نے کراچی کا عروج بھی دیکھا، سڑکوں کی صفائی و دھلائی، بناوٹ و سجاوٹ سب یاد ہے۔

عائشہ یہ کہہ کر تھوڑا آبدیدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ آج جب ہم اس عروس البلاد کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کچھ نہیں بدلا، یہ تو ویسا ہی شہر لگتا ہے جو آزادی کے بعد ہمیں ملا تھا، سہولتوں کے فقدان میں گھرا ہوا، لیکن دعا ہے کہ اس صوبے اور شہر پر حکومت کرنے والے کراچی کو اس کی حقیقی روح واپس کردیں۔

ٹی ڈی ایف گھر میں کراچی و تقسیم ہند سے منسلک نمائش 1 ماہ تک جاری رہےگی، جس کا ٹکٹ صرف 100 روپے رکھا گیا ہے۔

مزید خبریں :