09 فروری ، 2025
بلیک ہول کے بارے میں میں آپ نے کافی کچھ سنا یا پڑھا ہوگا، اس کے بارے میں کافی کچھ ایسا ہے جس کا ابھی تک علم نہیں ہوسکا مگر سائنسدانوں نے اس کا ایک اسرار ضرور جان لیا ہے۔
ویسے تو یہ کوئی راز نہیں کہ بلیک ہولز خلا میں موجود عجیب ترین چیزوں میں سے ایک ہیں۔
اب سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ بلیک ہولز 'اپنا کھانا' خود پکا کر کھاتے ہیں۔
جی ہاں واقعی چلی کی Santiago یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ بلیک ہولز کے اطراف میں گیس موجود ہوتی ہے جن کا درجہ حرارت مختلف جگہوں پر مختلف ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بلیک ہولز گرم گیسوں کو جذب کرتے ہیں جس سے ان میں طوفان جیسا جوش پیدا ہوتا ہے۔
اس جوش سے ان کے قریب موجود گرم گیس ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور یہ چکر مسلسل چلتا رہتا ہے۔
جیسا اوپر موجود تصویر کے بائیں جانب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہولز کے اردگرد سفید نقطے موجود ہیں جو دراصل گیس کے بادل ہیں۔
جامنی رنگ کے بادل گرم گیسوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
بلیک ہولز کی جانب سے گیس کے بادلوں کی طرف مادہ خارج کرتا ہے اور یہ مادہ جامنی بادل کو ٹھنڈا کرکے گلابی رنگ کی شریانوں جیسا پیٹرن بناتا ہے۔
یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور کبھی رکتا نہیں۔
محققین نے بتایا کہ گیسوں کے بادلوں کے اندر موجود ہیجان بھی اس عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
خیال رہے کہ کائنات کے اسراروں میں سے ایک اسرار بلیک ہول بھی ہے جسے جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسدان تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
بلیک ہول کائنات کا وہ اسرار ہے جسے کئی نام دیے گئے ہیں، کبھی اسے ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے تو کبھی موت کا گڑھا۔
کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔