Time 02 مارچ ، 2025
انٹرٹینمنٹ

بیٹیوں کی شادی وقت پر کریں عمر نکل گئی تو قصور وار آپ ہوں گی، جویریہ کا ماؤں کو مشورہ

بیٹیوں کی شادی وقت پر کریں عمر نکل گئی تو قصور وار آپ ہوں گی، جویریہ کا ماؤں کو مشورہ
تمام ماؤں کو مشورہ دوں گی کہ گھروں سے نکلیں، لوگوں سے ملیں جلیں اور کم عمری میں ہی بیٹیوں کیلئے رشتے تلاش کرنا شروع کردیں: جویریہ سعود— فوٹو:فائل

ان دنوں ہر پل جیو پر اداکارہ جویریہ سعود، ڈرامہ سیریل بجو میں مسرت (بجو) کے کردار میں دکھائی دے رہی ہیں، یہ کردار ایک ایسی لڑکی کا ہے جس کی شادی کی عمر نکل رہی ہے جس کے باعث اس کی طبیعت میں چڑچڑاہٹ اور بدمزاجی بڑھتی جارہی ہے۔

ڈرامہ مڈل کلاس فیملی کے حالات اور واقعات کی ہلکے پھلکے انداز میں عکاسی کرتا ہے جس میں اقلیتی برادری مثلا بوہرہ اور بہاری کمیونٹی سے بھی کردار لیے گئے ہیں۔

یہ تحریر جویریہ سعود نے لکھی ہے جبکہ ڈرامے کے ہدایت کار مظہر معین ہیں۔

جویریہ سعود کافی عرصے بعد جیو ٹی وی کی اسکرین پر واپس آئی ہیں، ان کا جیو کیلئے آخری ڈرامہ ’یہ زندگی ہے‘ تھا جو چھ سال تک چلا اور کافی مقبول ہوا۔

اداکارہ نے ڈرامہ سیریل بجو کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بڑھتی عمر اور شادی نہ ہونے کے سبب کنواری رہ جانے والی خواتین کی مشکلات پر روشنی ڈالی ہے۔

’اگر عمر نکلنے کی وجہ سے کوئی بھی بیٹی کنواری رہ جاتی ہے جس کی شادی نہیں ہو پارہی تو اس میں قصوروار ماں بھی ہے‘۔

اداکارہ نے ماؤں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹیوں کی شادی کیلئے ماؤں کو ہاتھ پاؤں مارنے چاہئیں۔

’میں نے دیکھا ہے کہ بہت سی مائیں لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتیں، وہ کہتی ہیں کہ جب اللہ نے چاہا ہوجائے گا، بھئی ایسے کیسے ہوجائے گا؟ کھانا بھی تو ہاتھ سے نوالہ بنا کر منہ میں ڈالتے ہیں تو میں تمام ماؤں کو مشورہ دوں گی کہ گھروں سے نکلیں، لوگوں سے ملیں جلیں اور کم عمری میں ہی بیٹیوں کیلئے رشتے تلاش کرنا شروع کردیں‘۔

اس سوال پر کہ ڈرامے کی کہانی سے آپ نے خود کو کتنا قریب محسوس کیا ہے؟

جویریہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ کہانی میری اپنی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم سب نے اس معاشرے میں جہاں ہم رہتے ہیں بدقسمتی سے ہر گھر میں ایک ایسی بیٹی بیٹھی دیکھی ہے جس کی شادی نہیں ہوئی اور جب وہ اپنے ارد گرد دیکھتی ہے کہ بھابھیوں بہنوں کو سسرال کا سکھ مل رہا ہے، ان کی زندگی آگے بڑھ رہی ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتی جس کی وجہ سے اس کی زبان میں تلخی اور کڑواہٹ بڑھ جاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب پر جویریہ نے کہا کہ میں نے متوسط طبقے میں آنکھیں کھولیں، ہم آنگن میں کھیل کود کر بڑے ہوئے، چاچا، ماما، تایا تائی کے ساتھ باہر گھومے پھرے، ہم باقاعدہ پلان بناتے تھے کہ کہاں کی آئس کریم کھانے جانا ہے کہاں کھانا کھانا ہے، ہم نے محلے داریاں دیکھی ہیں۔

’آپ ڈرامے میں جو متوسط طبقے کی زبان دیکھ رہے ہیں یہ سب میں نے اپنے بڑوں سے ایک ڈیٹا کی صورت میں اسٹور کیا ہے، ہم سپارہ پڑھنے جاتے تھے وہاں دیکھتے تھے کہ باتیں ہورہی ہیں، گلی محلوں میں گھومتے ہوئے زندگی کے کردار دیکھے تھے، جب بڑے بیٹھتے تھے تو ہمیں وہاں بیٹھنا منع ہوتا تھا، درمیان میں بولنا منع ہوتا تھا، یہ تہذیب نانی دادیوں سے ہمیں ملی تھی تو زیادہ سوچنا نہیں پڑتا جو کچھ خود دیکھا ہے وہی مڈل کلاس ماحول دکھانا چاہتی ہوں، شاید متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی اسی فیصد عوام ان ہی کہانیوں سے خود کو قریب محسوس کرتی ہے‘۔

ڈرامے کے ایک سین پر بوہرہ برادری کی جانب سے اعتراض اٹھا تھا کہ ان کی کمیونٹی کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے اور ردا جو کہ بوہری خواتین اوڑھا کرتی ہیں اس پر بھی سوشل میڈیا پر ایک اعتراض بھری پوسٹ دیکھی گئی تھی۔

ڈرامے کی کہانی میں بہاری اور بوہرہ برادری کے کردار دکھانا کیوں ضروری تھے جن پر اعتراض اٹھا اور ٹی وی اسکرین پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے کرداروں کو دکھانے کا مقصد کیا ہے؟

جویریہ نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں نے کسی دھوبن کا کردار دکھایا ہے تو اس کی مشکلات دکھائی ہیں، دھوبیوں کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے، جس کے اتار چڑھاؤ ہوتے ہیں، کہانی میں جو دھوبن ماں بیٹیاں ہیں وہ محنت کرکے گھر چلانے والی عورتیں ہیں تو اگر میں نے کسی بھی کمیونٹی کا کردار ڈالا ہے تو اس میں اعتراض کرنے والی بات نہیں بلکہ خوش ہونے کی بات ہے کہ ان کی برادری کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے‘۔

جویریہ نے مزید کہا کہ جہاں تک ان کرداروں کی اسکرین پر دکھانے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کرداروں سے زبان کے فرق سے چال ڈھال سے کچھ منفرد ہٹ کر لگتا ہے ورنہ تو وہی ساس بہو کی کہانیاں ہیں البتہ بہاری کردار دکھانے کا خیال ڈائریکٹر محسن کا تھا اور ثنا عسکری نے بہت ہی خوبصورتی سے نبھایا ہے، حرا شیخ نے دھوبن کا کردار بڑا اچھا کیا ہے اسی طرح ثمینہ احمد ڈرامے میں میری ماں کا کردار کررہی ہیں اگر وہ یہ نہ کرتیں تو ڈرامہ شاید اتنا مزیدار نہیں ہوتا‘۔

اداکارہ کو گزشتہ برس ان کے کردار عذرا سے کافی پذیرائی ملی تھی، اس وقت وہ ایک اور نجی چینل کے ڈرامے میں ستارہ کا کردار کررہی ہیں لیکن جویریہ سعود میں ان کرداروں کی کون سی خوبی موجود ہے؟

اداکارہ نے مسکرا کر کہا کہ عذرا جیسی تو میں بالکل نہیں ہوں وہ ہرکسی سے لڑتی تھی جبکہ میں بہت نرم طبیعت کی مالک ہوں، کسی سے نہیں لڑتی، ہاں جب غصہ آجائے تو کچھ بھی بول دیتی ہوں یہ خوبی عذرا جیسی ہے۔

میں ستارہ جیسی بھی نہیں ہوں، اسے ہیروئن بننے کا شوق تھا اور میں تو ہیروئن ہوں، ہاں ایک چیز ضرور ہے، اداکارہ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ ستارہ انتظار کررہی ہے مشہود کا اور میں انتظار کررہی ہوں اپنے شوہر سعود کا تو یہ ملتا جلتا ہے۔

اب بات ہے بجو کی تو میں بجو جیسی بھی نہیں کیونکہ میری شادی وقت پر ہوگئی تھی اور اب میری بیٹی بھی خیر سے بڑی ہوگئی ہے چند سال بعد ہم اس کی شادی کررہے ہوں گے تو میں بجو جیسی بھی نہیں ہوں۔

جویریہ نے کہا کہ ہر کردار کی ایک کہانی ہے یہ تمام کردار آپ کو ایک مڈل کلاس فیملی میں ملیں گے، خواتین خود مختار ہیں وہیں ایک بیٹا ایسا بھی ہے جو کرتا کچھ نہیں لیکن شادی بھی کرنی ہے، مزے بھی اس کو کرنے ہیں، ہر گھر میں ایک ایسا بھائی یا بیٹا ضرور ہوتا ہے، وہیں ہماری مائیں بھی ایسی ہوتی ہیں جو زرا مضبوط اور کمانے والی اولاد کی طرف دار زیادہ ہوتی ہیں یہ بھی آپ کو ڈرامے میں ملے گا۔

بجو کی کاسٹ میں جویریہ سعود کے علاوہ ثمینہ احمد، سکینہ خان، عاریز احمد، ثنا عسکری، عائشہ گل، یاسر شورو اور دیگر شامل ہیں۔

مزید خبریں :