22 مارچ ، 2013
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…برطانوی جریدہ” اکنامسٹ “لکھتا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نے مدت تو پوری کر لی لیکن اس مدت کوقابل تحسین انداز میں نہیں لیا جا رہا۔ملک کو کاغذات میں وزیراعظم نے چلایا لیکن ملک کے اصل حکمران(انچارج) زرداری تھے،لاہور میں زرداری کا بلٹ پروف محل ریاستی امور کی بجائے پلے بوائے پارٹی کے لئے زیادہ موزوں جگہ لگتی ہے، پاکستان کا پورٹ سٹی اور معاشی قلب کراچی کلنگ زون میں تبدیل ہو چکا ہے،جہاں روزانہ اوسطاً ایک درجن گولیوں سے چھلنی لاشیں ملنا معمول بن چکا ہے ،بدقسمت سیاسی جماعتوں سے منسلک گینگز کی لڑائی کا شکار ہوتے ہیں۔پی پی پی نے کراچی کی گلیوں میں دو دوسری سیاسی جماعتوں اے این پی اور متحدہ کے ساتھ لڑائی جاری رکھی حتی کہ اسلام آباد میں وہ حکومت میں خوشی سے ایک دوسرے کے اتحادی رہے۔ زرداری حکومت میں اس حد تک بد انتظامی اور کھلے عام پیسہ بٹورا گیا کہ آئینی مدت کی تکمیل کے سیاسی سنگ میل نے پاکستانیوں کو زیادہ خوشی نہیں دی۔حکومت کی مدت کی تکمیل میں نواز شریف کا بھی کردار رہا ہے جو فوج کے ہاتھوں کھیلنے میں محتاط رہینواز شریف کے لئے وزارت عظمیٰ کے دفتر کا راستہ آسان نہیں،اگر وہ وزارت عظمیٰ تک پہنچ جاتے ہیں تو انہیں یقیناً خطرناک چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ زرداری حکومت نے خدمات فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔انہوں نے زیادہ تر وقت مسلح افواج اور عدلیہ کے ساتھ اختیارات کی محاذ آرائی میں گزارا۔جریدہ لکھتا ہے کہ انتخابات سے کچھ ہفتے قبل آصف علی زرداری لاہور میں ایک حویلی میں منتقل ہوگئے جو خصوصی انہی کیلئے تعمیر کی گئی۔صدر زرداری کالاہور میں وسیع و عریض رقبے پر پھیلی عمارت جو کہ مبینہ طور پر ہیلی پیڈاوربڑے سوئمنگ پول حامل بلٹ پروف محل تکبر اور لالچ کا امتزاج ہے، ان کی جماعت بتاتے ہوئے کوئی پرواہ نہیں کرتی کہ یہ کس طرح حاصل کیا گیا۔یہ محل ایک پراپرٹی ٹائکون کی تعمیرات کے درمیان کھڑا ہے جوبااثر دوستوں کوحاصل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ صدر کے ترجمان کا اصرار ہے کہ زرداری خاندان نے اس عمارت کی ادائیگی کی ہے،لیکن اس کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔الیکشن کے شیڈل کا اعلان کیا جا چکا ہے،پاکستان کیلئے یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ،یہ خوشی منانے کی وجوہ ہونی چاہیے جہاں اکثر فوج جمہوریت کا خاتمہ کرکے اقتدارپر قابض ہو جاتی ہے۔ 2008میں ہمدردی کی لہر زرداری اور پی پی پی کو اقتدار میں لائی،جب بے نظیر کو شہید کردیا گیا۔زرداری کبھی بھی مقبول نہیں رہے ، انہیں پارٹی کی سربراہی اور اقتدار ملاتووراثت میں خراب صورت حال ہی ملی جسے ان انہوں نے مزید ابتری میں بدل دیا۔معاشی نمو کے زوال،افراط زر اور مہنگائی میں اضافے سے غریب پاکستانیوں کو سزا ملی۔ بجلی کے دائمی بحران سے نمٹا نہیں گیا۔ مسلح افواج نے سلامتی اور خارجہ پالیسی کو سختی سے اپنے کنٹرول میں رکھا۔دہشت گردی عفریت کا روپ دھار گئی،سوات پررٹ بحالی کے سوا ملک پر بھر میں پر تشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے کچھ نہیں کیاگیا۔ لبرل جھکاوٴ کی حامل پارٹی کی پارلیمنٹ میں ایک تہائی سیٹیں تھیں لیکن زرداری کی سودا بازی کی حکمت عملی نے اتحاد قائم رکھا ۔کچھ اختیارات کی منتقلی کی قابل قدر آئینی ترامیم بھی ہوئیں اور زرداری نے صدارت کی رسمی اختیارات بھی ترک کردیئے۔ مختلف سروے اور پول نواز شریف کو پی پی پی کے مقابلے میں سرفہرست رکھتے ہیں۔مئی میں انتخابات میں ان کی جماعت کے بھاری اکثریت میں کامیابی کے امکانات ہیں۔تاہم نہیں پنجاب سے باہر اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی۔علاقائی سیاست بھی اہم کردار ادا کرے گی۔