15 مارچ ، 2014
تھرپارکر…تھر کی خشک سالی اور قحط سے جنم لینے والا یہ المیہ نیا نہیں، یہ دکھ برسوں پرانا ہے جب بھی خشک سالی آتی ہے، تھر کی مائیں اپنے صحرا جیسے خشک وجود کیساتھ بچوں کو چمٹائے موت سے لڑ تی ہیں ۔ تھر کی باسی آمنہ ہے ، خشک سالی اس ماں کے وجود میں اتری اور یہ اپنے نومولود کا پیٹ نہ بھر سکی۔بیماری کا حملہ ہوا۔اور اسکا بچہ ماں کا وجود ادھورا چھوڑ گیا۔آمنہ کی دوسری بہنیں بھی اس اذیت سے گذر چکی ہیں کسی کے دو بچے قحط سالی کی نذر ہوئے اور کسی کے تین۔وجہ ایک ہی کہ ماں۔خالی پیٹ رہ کر بچوں کا پیٹ کیسے بھرے۔بچوں میں قوت مدافعت ختم اور بیماریاں شروع۔ تھر کی ماوٴں کے روتے بلکتے بچے ان سے خوارک کا تقاضہ کرتے ہیں۔نئی زندگیوں کو جنم دینے والی یہ مائیں ہر تکلیف ہنس کر سہتی ہیں ۔یہ بچوں کو جنم دینے سے نہیں ڈرتیں، بچہ جنم دینیکے بعد اس کی بھوک اور موت سے ڈرتی ہیں۔ نو ماہ بچے کو کوکھ میں رکھ کر تکلیف برداشت کرنا ان عورتوں کے لئے مشکل نہیں لیکن اپنے جگر گوشوں کا جنازہ اٹھتا دیکھ کر ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے تو وہ کیا کریں۔انکی چیخیں ریتیلے کے پہاڑوں میں گم ہوجاتی ہیں،لیکن بلند و بالا ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔