20 مارچ ، 2014
کراچی…چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ کراچی بد امنی کا شکار ہے اور سندھ میں مستقل آئی جی نہیں جبکہ ڈی جی رینجرز کہتے ہیں کہ ان کے پاس کاغذی اختیارات ہیں۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کراچی بے امنی کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی سندھ اقبال محمود سے استفسار کیا کہ آپ مستقل آئی جی ہیں یا اب تک قائم مقام۔ ہاں میں جواب ملنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سندھ کا امن وامان پر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ صوبے میں مستقل آئی جی نہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو حکم دیاکہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ فوری طور آئی جی سندھ مقرر کرکے رپورٹ پیش کریں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے بتایا کہ پولیس رپورٹ کے مطابق اغواء برائے تاوان اور بھتا خوری میں اضافہ ہوا ۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ ہماری بات چھوڑیں عدالت میں موجود لوگوں سے پوچھیں کیا یہ وہ شہر میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ رینجرز کا کہنا ہے کہ وہ قتل کا ملزم پکڑتے ہیں، پولیس اسلحے کا مقدمہ بناتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آخر ڈی جی رینجرز نے یہ بیان کیوں دیا کہ ان کے پاس کاغذی اختیارات ہیں، لگتا ہے قانون نافذ کرنے والوں میں ہم آہنگی نہیں۔ رینجرز کے وکیل شاہد انور باجوہ نے کہاکہ رینجرز کو پانچ تھانے اور تفتیش کی نگرانی کا اختیار تجویز کیا گیا لیکن پیش رفت نہیں ہوئی۔ رینجرز کے لاء آفیسر میجرمحمد اشفاق نے بتایاکہ رینجرز کے پاس صرف ملزمان پکڑ کر پولیس کو دینے کا اختیار ہے، ہائی پروفائل ملزمان پکڑتے ہیں لیکن تفتیش نہیں کرسکتے۔میجر محمد اشفاق نے مزیدبتایاکہ چھ ماہ میں رینجرز کے گرفتار شدہ 517ملزمان ضمانت پر رہا ہوگئے۔ عدالت نے رینجرز سے اختیارات پر تحفظات کاتحریری بیان طلب کرلیا۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار کی تقرری سے متعلق محکمہ داخلہ کی رپورٹ مسترد کردی اورریمارکس دیے کہ رپورٹ عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ راوٴ انوار کی اے ایس آئی سے ایس ایس پی بننے تک کی پروفائل منگوائی تھی، مگر گریڈ 17کے بعد کا سروس ریکارڈ پیش کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ایس ایس پی راوٴ انوار کی ترقی سے تقرری تک کی ایک ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر کے سماعت ملتوی کردی۔