09 جولائی ، 2014
پشاور.........پشاورمیں شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز بچے بھی رجسٹریشن کے لئے قطاروں میں لگنے پر مجبور تھے۔بیرون ملک سے چھٹیاں منانے گھر آنے والے بھی آئی ڈی پیز بن گئے۔ انہیں شدید مشکلات سے دوچارہونا پڑا ہے۔بے سروسامانی کے عالم میں شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے یہ وہ بچے ہیں جن میں سے کسی کا باپ فوت ہو چکا ہے تو کسی کا والد مزدوری کی غرض سے بیرون ملک گیا ہے۔ یہ بچے ہاتھوں میں والد کا شناختی کارڈ تھامے پشاورمیں قائم رجسٹریشن سنٹر پہنچ گئے۔ان بچوں کے پاس والدین کے جو شناختی کارڈ موجود ہیں ان پر دونوں پتے شمالی وزیرستان کے درج ہیں لیکن ان کی رجسٹریشن نہیں کی جا رہی ۔بیرون ملک محنت مزدوری کرنےوالا یہ شخص شمالی وزیرستان میں اپنے خاندان کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے آیا تھا تاہم اسے بھی آئی ڈی پی بننا پڑا۔ رجسٹریشن کے تیسرے روز میر علی سے تعلق رکھنے والے متاثرہ افراد بھی دہرے پتے کی وجہ سےپریشان اورفکر مند دکھائی دئیے۔ایف ڈی ایم اے کے مطابق دہرے پتے کے حامل افراد کوآئی ڈی پیز کادرجہ نہیں مل سکتاجبکہ رجسٹریشن ہونے اور موبائل سم ملنے کے بعدتمام ڈیٹاتصدیق کے لیے نادرا کو بھجوایا جاتا ہے،جس کے بعد ہی آئی ڈی پیز امداد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔اسسٹنٹ ڈائریکٹرفاٹاڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹیعرفان اللہ کا کہنا ہے کہ پالیسی ہے کہ دونوں پتے شمالی وزیرستان کےہوں۔پہلے مرحلے میں تین، چار ہزار خاندانوں کو رقم کل سے ملنا شروع ہوجائےگی۔شمالی وزیرستان کے 38ہزار رجسٹرڈ خاندانوں میں سے 24ہزار خاندانوں کی تصدیق ہوچکی ہے جنہیں جمعرات سے وفاقی حکومت کی طرف سے 37ہزار روپے ملنا شروع ہوجائیں گے۔