پاکستان
18 اکتوبر ، 2014

کارساز حملے کو 7 سال گزرنے کے باوجود مقدمہ سردخانے کی نذر

کارساز حملے کو 7 سال گزرنے کے باوجود مقدمہ سردخانے کی نذر

کراچی.......افضل ندیم ڈوگر.......پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قافلے پر خودکش حملوں کو 7سال گزرنے کے باوجود مقدمہ مسلسل سردخانے کی نذر ہے۔ تفصیلات کے مطابق خودساختہ جلاوطنی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس پہنچیں۔ کراچی میں ان کے طویل ترین استقبالی جلوس پر کارساز کے قریب خودکش حملے کئے گئے۔ سانحے کا پہلا مقدمہ ایس ایچ او عابد شاہ کی مدعیت میں بہادرآباد تھانے میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس ایف آئی آر پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرانے کے لئے تھانے میں درخواست دی۔ مگر پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ جس پر عدالتی چارہ جوئی کی گئی۔ ضلعی عدالت نے 23نومبر 2007 ءکو سانحہ کارساز کا دوسرا مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا۔ جس کے خلاف حکومت نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی جسے بعد ازاں واپس لے لیا گیا تو سانحہ کارساز کے ٹھیک ایک سال بعد بہادرآباد تھانے میں دوسری ایف آئی آر نمبر 213 درج کرلی گئی۔ پولیس کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کی مدعیت میں یہ مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف تھا مگر بی بی کے صدر جنرل پرویز مشرف کو لکھے گئے خط کی روشنی میں چوہدری پرویز الٰہی، جنرل ریٹائرڈ حمید گل اور اعجاز شاہ مشتبہ تھے اور انہیں دفعہ 109 کے تحت مقدمے میں شامل کیا جاسکتا تھا مگر اعلیٰ سطح کی کوششوں کی وجہ سے وہ بے گناہ ٹھہرے۔ کار ساز حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کالعدم تنظیم کے ایک رکن قاری اختر کو کراچی منتقل کیا گیا جسے ابتدائی تفتیش کے دوران ہی بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ تفتیشی افسر نواز رانجھا نے اکتوبر 2007ء اور پھر نومبر 2008ء میں عدالت میں رپورٹس جمع کرائیں جن میں ملزمان کی عدم گرفتاری کا اقرار کیا گیا۔ اس مقدمے میں پولیس کی یہ آخری کارروائی تھی۔ بعد ازاں پولیس افسر نواز رانجھا کو مسلح حملے میں شہید کردیا گیا۔ جس کے بعد تفتیش کس پولیس افسر کے پاس ہے کو شش کے باوجود پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی اس کیس میں مزید کسی پیش رفت کا سراغ مل سکا۔ کسی مقدمے میں انصاف نہ ملے تو لواحقین انصاف کے حصول کے لئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں لیکن یہاں تو صورتحال ہی الٹ ہے۔ تمام عرصے سے مدعیان خود حکومت میں ہیں۔ ناکامی کی ذمے دار سندھ حکومت بی بی کی اپنی پاکستان پیپلزپارٹی ہی کے پاس ہے۔ ان 7سال میں سے 5سال کے دوران صدر پاکستان، چئیرمین سینیٹ اور وزارت عظمیٰ سمیت اہم حکومتی عہدے بھی پاکستان پیپلزپارٹی ہی کے پاس رہے مگر سانحہ کار ساز میں ملوث ملزمان کا کوئی سراغ لگایا جاسکا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی گرفتاری ہوئی۔ ستم ظریفی یہ بھی کہ 150سے زائد افراد کے اجتماعی قتل اور 500سے زائد کے زخمیوں کے کسی وارث نے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی۔

مزید خبریں :