27 دسمبر ، 2015
گڑھی خدا بخش........پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم شہید بے نظیر بھٹو کی 8 ویں برسی آج ملک بھرمیں منائی جارہی ہے۔27 دسمبر 2007 دہشت گردی کےخلاف بھرپورآوازبلند کرنےوالی قوم کی بہادربیٹی راولپنڈی میں دہشت گردی کانشانہ بن گئی ۔
پاکستان کی دو بار وزیر اعظم رہنے والی بینظیر بھٹو کو آج ہم سے بچھڑے8 سال ہوگئے ہیں۔27 دسمبر 2007 کو پاکستا ن کی ممتازسیاسی رہنما بینظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے لیاقت باغ میں نشانہ بنایا ۔انتخابات قریب ہونے کے باعث بینظیر بھٹو ملک بھر کے دورے کررہی تھی اور راولپنڈی لیاقت باغ میں جلسہ اِسی سلسلےکی کڑی تھی۔اس روز لیاقت باغ میں کارکنوں کا جم غفیر مو جود تھا، جو اپنی رہنما کی آمد کا منتظر تھا۔3بج کر 31 منٹ پر بینظیر لیاقت باغ پہنچیں اور عقبی راستے سے اس اسٹیج پر پہنچی۔
بےنظیر بھٹو نے اپنی تقریر کا آغاز کارکنوں کے پرجوش نعروں میں کیا اور ملک کو لاحق دہشتگردی کے خطرات اور چیلنجز کے بارے میں بات کی ۔ تقریر کے بعد بینظیراسٹیج سے اتر کر اپنے گاڑی کی جانب بڑھیں اور 5 بج کر 12 منٹ پر بینظیر کی گاڑی بیرونی دروازے سے باہر آئی اور لیاقت روڈ پر مڑنے لگی۔ جیالوں کا جم غفیر دیکھ ، بینظیر بھٹو اپنی گاڑی کےہیچ کھول کر باہر آئیں اور کارکنوں کے نعروں کا جواب دیا ۔
مگرکون جانتا تھا کہ اسی مجمع میں ایک دہشتگرد بھی موجود ہے۔ جیسے ہی بینظیر بھٹو کی گاڑی دروازے سے باہر آئی اور لیاقت روڈ کی جانب مڑ ی ، تقریباً 5 بج کر 14منٹ پر ایک شخص نے ، 2یا تین میٹر کے فاصلے سے بینظیر بھٹو کا نشانہ لے کر تین گولیاں ماریں اور آخری گولی چلانے کےبعد اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔
دھماکے کے بعد اس مقام پر ایک قیامت بپا تھی۔ افراتفری کے عالم تھا، بینظیر بھٹو کو 5 بج کر 35 منٹ پر اسپتال پہنچایا گیا مگر تمام تر کوششوں کے بعد وہ جانبر نہ ہو سکیں ۔ 6 بج کر 16 منٹ ان کی شہادت کی اطلاع آگئی اور پاکستان ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگیا۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کو 8 سال بیت چکے ، 275سماعتو ں کے بعد بھی ان کے قتل کا مقدمہ منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا۔ سابق وزیراعظم کے قتل کی ابتدائی تفتیش پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے کی بعدمیں تفتیش ایف آئی اے کی مشترکا تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کر دی گئی۔ کیس کی سماعت 2008 میں انسداد دہشت گردی عدالت میں شروع ہوئی ۔ دسمبردوہزار15 تک275 سماعتیں ہوچکیں لیکن مقدمہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔
سالہاسال سماعت کےدوران سات ججز تبدیل ہوئے ۔دوران سماعت گواہوں کو دھمکیاں ملیں اور ایف آئی اے کے سینئر پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو 3 مئی 2013 کو گھر سے عدالت روانہ ہوتے ہوئے کار پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کرانے اور اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرنے کی حکومتی درخواست کے باعث بھی خصوصی عدالت میں ٹرائل ڈیڑھ سال تاخیر کا شکار رہا۔اب تک استغاثہ کے 60 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں اورمحض 5 سے 6 گواہوں کے بیانات قلم بند ہوناباقی ہیں ۔مارک سیگل کی statement ہو گئی ہے۔ 20 جنوری کو اس کا کراس ایگزامی نیشن کے لیے پڑا ہوا ہے۔
بےنظیربھٹو قتل کیس کےایک ملزم سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا ہے کہ مارک سیگل بے نظیر بھٹو کے ذاتی ملازم تھے، اس لئے ان کابیان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو دھمکی آمیز ٹیلی فون کال کی نہ ان پر سیکورٹی فراہم نہ کرنےکے الزامات میں کوئی صداقت ہے ۔
بے نظیر بھٹو قتل کیس کے ملزمان کےخلاف 8 عبوری چالان عدالت میں پیش کیے گئے، 5 ملزمان گرفتار ی کے بعد اڈیالہ جیل میں قید جبکہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور دو سابق پولیس افسران سمیت 3 ملزمان ضمانت پر ہیں۔ بیت اللہ محسود سمیت 7 اشتہاری ملزمان مارے جا چکے۔
بے نظیر بھٹو کی برسی کی مرکزی تقریب گڑھی خدا بخش میں منعقد کی گئی ہے ، برسی کی تقریبات کا آغاز قرآن خوانی سے کیا گیا ۔برسی کی تقریب میں سندھ سمیت ملک بھر سے بڑی تعداد میں کارکن تقریب میں شرکت کے لئے گڑھی خد ابخش پہنچ رہے ہیں ۔گڑھی خدابخش میں جیالوں کی آمدکاسلسلہ جاری ہے جبکہ سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
نماز ظہر کے بعد گڑھی خدا بخش میں مرکزی جلسہ ہوگا جلسے سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ اور چاروں صوبوں کے پیپلز پارٹی کے صدور خطاب کریں گےاورشام ساڑھے 5 بجے جلسے کا اختتام ہوگا۔ شام 6 بجے نوڈیرو ہاوس میں سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوگا، اجلاس کی صدارت پہلی بار بلاول بھٹو کریں گے، اس سے قبل شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ہمراہ بلاول بھٹو سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے رہے ہیں۔
برسی کے موقع پر سیکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے ہیں،رینجرز کے علاوہ 7 ہزار پولیس اہلکار گڑھی خدا بخش اور اطراف کے علاقوں میں سیکورٹی کے فرائض دے رہے ہیں ،ایک ہزار ٹریفک پولیس اہلکار اور 300 خواتین پولیس اہلکار بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج لاڑکانہ میں طلب کرلیا گیا ہے۔ اجلاس میں رینجرز کے اختیارات پر وفاق اور صو بائی حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی صورتحال پر غور جبکہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے نئے صدر کا بھی انتخاب کیا جائے گا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں سی ای سی کا جلاس نوڈیرو ہاوس میں ہوگا۔ اجلاس میں ملکی سیاسی صو ر تحال سمیت سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے معاملہ پر وفاقی اور صو بائی حکومت کے دوران پیدا ہونے والی صو ر تحال پر بھی غور کیا جائے گا ۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے نئے صدر کا بھی انتخاب کیا جائے گا، پارلیمنٹرین کے صدارت کا عہدہ مخدوم امین فہیم کے انتقال کے باعث خالی ہوا تھا ۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں ایک قراداد کے ذریعے پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ ختم کرنے اور آصف علی زرادری کو پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کا نیا صدر مقرر کرنے کی سفارش کی جائے گی ۔
اجلاس میں ملک بھرمیں پارٹی کی ازسر نو تنظیم سازی ،پنجاب اور سندھ کے تنظیمی عہدوں میں بھی بڑے پیمانے پر ردوبدل کرنے کا امکان ہے ۔ جبکہ شہید بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کئی اہم شخصیات کی دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر اپنے پیغام میں سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ وفاق نے امن و امان کے نام پر سندھ پر چڑھائی کر دی ہے لیکن آئین پامال کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنا دی جائیں گی ۔ کارکنوں اور عوام کی مدد سے آئین کو سربلند رکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسند مذہب کے نام پر ریاست پر قبضہ کر کے خود ساختہ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایجنڈا داعش، کینیا کے الشباب اور نائیجیریا کے بوکو حرام سے مختلف نہیں ۔ پیپلز پارٹی شدت پسندوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی ۔
آصف زرداری کا کہنا ہے کہ آئینی، جمہوری اور انسانی حقوق کیلیے بینظیر شہید کے عزم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف رینجرز کے اختیارات پر سپریم کورٹ جانے یا نہ جانے کے مشورے کیلیے فاروق نائیک کو دبئی بلوالیا گیاہے ۔بینظیر شہید کی برسی کی مرکزی تقریب میں شرکت کیلئے بلاول بھٹو زرداری نوڈیرو پہنچ گئے ہیں جہاں پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا کل ہونیوالا اجلاس انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے ۔
8 برس قبل آج ہی کے روز محترمہ بینظیر بھٹو کا ساتھ اس دنیا سے اور انکا ہاتھ اپنی عوام سے چھوٹ گیا تھا، اتنے برس بعد جب کارکن انہیں یاد کرتے ہیں تو خود کو سیاسی چھپر چھاؤں سے محروم محسوس کرتے ہیں۔شہید بی بی کے فانی دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد پیپلز پارٹی قیادت اور کارکنوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا جسے پر ہونے میں شاید بہت وقت درکار ہو۔جو کارکن صرف اس حوصلے پر آمروں سے ٹکرا جاتے تھے کہ انکی وارث بینظیر بھٹو موجود ہیں،آج وہی جیالے سیاسی یتیمی محسوس کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کو خیبر پختونخوااور فاٹا سے بڑا لگاؤ تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ صوبے اور قبائلی علاقوں سے دہشتگردی اور پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں بے نظیر شہید بھٹو شہید نے پشاور اور خیبر پختون خوا کےمختلف علاقوں کے چار دورے کیے۔ان کی خواہش تھی کہ پختونوں کے خطے سے بدامنی اور دہشتگردی ختم ہو۔
خیبرپختون خوا میں امن وامان کی ابتر صورتحال کے باوجود یہاں کا دورہ کرنا بے نظیر بھٹو کی اس صوبے سے محبت کا ثبوت تھا۔وہ اس خطے کے لوگوں کو مشکلات میں دیکھ کر دل گرفتہ ہوتی تھیں۔شہادت سے ایک روز قبل 26دسمبر کو بے نظیر بھٹو کا ارباب نیاز سٹیڈیم میں خطاب پشاور میں ان کا آخری خطاب ثابت ہوا، بے نظیر بھٹو دنیا سے تو چلی گئیں مگر صوبے کے عوام سے دلی محبت اور خدمات کی وجہ سے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں۔