03 فروری ، 2016
ایک وقت تھا جب ’ایم ایس ایس‘ یعنی مختصر پیغامات کے بغیر موبائل فون کے زیادہ تر صارفین کا گزارا نہیں ہوتا تھا لیکن آج بہت ہی کم لوگ ایک دوسرے کو ایم ایس ایس بھیجتے ہیں۔ کیا مختصر پیغام رسانی کا رواج ختم ہو چکا ہے؟
واٹس ایپ کا آغاز 2009 میں ہوا تھا۔ اس وقت لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ایس ایم ایس اور اسی طرح کی دیگر سہولیات ہونے کے باوجود واٹس ایپ کون استعمال کرے گا؟ لیکن آج لوگ پوچھتے ہیں کیا مختصر پیغام رسانی یا ایس ایم ایس کی کوئی ضرورت ہے؟
جرمن نشریاتی ادارے ’ڈوئچے ویلے‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایس ایم ایس آج بھی لکھا اور بھیجا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سہولت کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے۔
سن 1995 سے جرمنی میں ایس ایم ایس کا رجحان بڑھنا شروع ہوا۔ اُس وقت 160 حروف کے ساتھ ایک پیغام لکھا جا سکتا تھا۔ یہ رواج پروان چڑھا اور 2012 میں یہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تاہم اس کے بعد سے ایس ایم ایس کا زوال شروع ہوا اور جو آج تک جاری ہے۔
سن 2012 میں 59 ارب ایس ایم ایس بھیجے گئے اور 2013 میں یہ تعداد کم ہو کر 38 ارب رہ گئی۔ بات اگر 2014 کی کی جائے تو صرف جرمنی میں ساڑھے بائیس ارب ایس ایم ایس پیغامات بھیجے گئے۔
وجہ کیا ہے؟
یونیورسٹی ڈیوس برگ ایسن سے تعلق رکھنے والے ٹورسٹن گیرپوٹ کہتے ہیں ’’وجہ بالکل واضح ہے اور وہ ہے واٹس ایٹ ایپلیکیشن۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ 2013 سے واٹس ایپ کے استعمال میں روزانہ کی بنیادوں پر اضافہ ہو رہا ہے۔
گیرپورٹ کے بقول اس کے علاوہ سماجی ویب سائٹ فیس بک بھی فوری پیغام رسانی کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اس دوڑ میں ایپل بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس کمپنی نے 2011 میں آئی میسج سروس شروع کی تھی جسے ایپل کے تمام آلات پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایس ایم ایس کے حریفوں میں تھریما بھی شامل ہے۔ اسے 2012 میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس سہولت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے بھیجے جانے والا پیغام کوڈ کی صورت میں ہوتا ہے اور اسے صرف وہی پڑھ سکتا ہے، جسے یہ بھیجا گیا ہو۔
سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے خفیہ دستاویزات منظر عام پر لائے جانے کے بعدتھریما کی طلب میں اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح چین اور دیگر ممالک میں بھی ایس ایم ایس کی متبادل سروسز متعارف کرائی جا چکی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ آج کے دور میں اگر کوئی موبائل ٹیلیفون کے ذریعے پیغام یا تصویر بھیجنا چاہتا ہے تو وہ انٹرنیٹ پر موجود دیگر سروسز استعمال کرتا ہے اور یہ رجحان آئندہ بھی ایسے ہی جاری رہے گا۔