15 اکتوبر ، 2016
ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین بہت اچھے شاعر بھی تھے،ان کے بہت سے اشعار زبان زدعام ہیں،ان میں سے ایک شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے۔
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا
چند روز قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے جسٹس شاہ دین کے حوالے سے گفتگو بھی ہوئی کیونکہ دو ہفتے قبل دی نیوز اخبار میں جسٹس شاہ دین پر میرا تحقیقی مضمون شائع ہوا تھا۔
پاکستان کے موجودہ حالات پر ایک صدی پیشتر کہا گیا شعر بالکل صادق آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جسٹس شاہ دین کے پیش نظر پاکستان کے موجودہ حالات ہی تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا سے ہی بیوروکریسی نے سیاست دانوں کو ان کے باہمی تنازعات کی وجہ سے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا،جن لوگوں نے پاکستان کی سلامتی سے کھیلا ہے، ان میں سیاست دان کم اور دوسرے زیادہ ملتے ہیں، البتہ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ بیوروکریسی کی بھی تمام خطائیں عاقبت نا اندیش سیاست دانوں کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔
ان سیاست دانوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو اورنگزیب کے مرنے کے بعد بادشاہ گر سید برادران نے نااہل مغل شہزادوں کو تخت طاؤس پر بٹھا کر کیا، آج سید برادران کو سب بھول گئے لیکن مغل شہنشاہوں کا مذاق آج غیر تو غیر اپنے بھی اڑا رہے ہیں،یہ کوئی نہیں جانتا کہ اہل شہزادوں کو کس بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تاریخ کا دھارا کسی اور رخ بہتا اور ایسا ہی کچھ پاکستان کے قیام کے بعد جمہوریت کے ساتھ ہوا،جس نظام دکن نے شیر میسور فتح علی ٹیپو کو انگریز کے ساتھ مل کر شہید کروایا حکومت تو اس کی بھی نہیں بچی، وہ آخر کار انڈین یونین میں ضم ہو گئی، افسوس ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی۔
قائد اعظم کا پاکستان پہلے ہی دولخت ہو چکا ہے، ہمیں اب خود کو متحد کرنا ہے، سیاست دان ہوں،بیوروکریسی ہو، عوام ہوں، یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں،یہ تو طے ہے کہ جمہوریت اس ملک کیلئے ناگزیر ہے اور سب اداروں کو مل کر اسے بچانا ہے،پاکستان کو سیاست دانوں نے ہی ووٹ کے ذریعے بنایا، اس وقت بھی سیاست دانوں پر الزامات لگتے تھے جس نے اس مملکت خداداد کا خواب دیکھا اور جس نے تعبیر دی کون نہیں جانتا کہ ان کو کیا کیا نہ کہا گیا۔
آج بھی ان بے لوث لوگوں پر کیا کیا الزام نہیں لگ رہے، سو لوگوں کا کیا کہنا، ولیوں کو بھی معاف نہیں کرتے،پاکستان کا قیام تاریخ کا بے حد انوکھا واقعہ ہے، بدقسمتی سے اپنے قیام کے ایک سالبعد ہی مملکت خداداد اپنے بانی سے محروم ہو گئی اور تقریباًگیارہ برس تک اس کے مخصوص مزاج کے مطابق کوئی آئین نہیں بنایا جا سکا اور مملکت خداداد کی درست سمت متعین نہ ہو سکی جس کے نتائج آج ہمارے سامنے آرہے ہیں، اس دوران پاکستان پر بیوروکریسی کا مکمل راج رہا۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2009ء سے میڈیا کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں نے بھی کافی سبق سیکھا، نوازشریف بھی بہت کچھ سیکھ گئے، جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابی حاصل کی، دہشت گردوں کو اُن کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔
جنرل راحیل شریف اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پاکستان کو بیرونی خطرے سے زیادہ خطرہ اندرونی اور مخصوص سوچ رکھنے والوں سے ہے، پاکستانی فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔
اُدھر نوازشریف اپنی ٹیم کے ساتھ ملک کی معیشت ٹھیک کرنے میں جت گئے، بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران بھی حکومت اور فوج ایک ساتھ کھڑے محسوس ہوتے ہیں، اس طرح سول اور ملٹری ریلیشن شپ کی ایک زبردست ڈاکٹرائن وجود میں آئی جس سے پاکستان بہت جلد اپنے مسائل پر قابو پالے گا۔