خصوصی رپورٹس
19 دسمبر ، 2016

2008ء سے تاحال سندھ میں 11 آئی جی تبدیل ہوئے

2008ء سے تاحال سندھ میں 11 آئی جی تبدیل ہوئے

 

سید عارفین...سندھ کا ایک اور آئی جی فارغ کر دیا گیا، جس کی خبریں گزشتہ ماہ سے آرہی تھیں، اتوار کی رات صوبائی حکومت کے کہنے پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ رخصت پر چلے گئے ہیں اور خیال یہی کیا جارہا ہے کہ ان کی خدمات جلد ہی وفاقی حکومت کے حوالے کردی جائیں گی۔

صوبائی حکومت کی سفارش پر رواں سال 12 مارچ کووفاقی حکومت نے اے ڈی خواجہ کوسندھ کا نیا آئی جی مقرر کیا تھا، اس سے قبل سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کو پونے 2 سال فرائض انجام دینے کے بعد ہٹا دیا گیا تھا، جو اس وقت نیب کی جانب سے قائم کئے گئے کرپشن الزامات کا عدالتوں میں سامنا کررہے ہیں۔

14 سال کے دوران سندھ اور پنجاب میں ایک درجن سے زائد انسپکٹر جنرل آف پولیس کو تبدیل کیا جاچکا ہے، 2002ء سے 2016ءکے دوران پنجاب میں 11 آئی جیز تبدیل ہوئے جبکہ سندھ میں اسی دوران 16 آئی جیز کو تبدیل کیا گیاجبکہ 2008ء سے اب تک پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے دو ادوار میں7 جبکہ سندھ میں اسی دوران پیپلز پارٹی کی حکومت میں 11 آئی جیز تبدیل ہوئے،اس دوران پنجاب کے موجودہ آئی جی مشتاق سکھیرا صوبے میں طویل عرصے تک آئی جی کے عہدے پر فائض رہے،انہیں جون 2014ء میں تعینات کیا گیا تھا اور ڈھائی سال سےزائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ اس وقت اپنے عہدے پر کام کررہے ہیں۔

سندھ میں سب سے زیادہ عرصے تک کما ل شاہ نے بطور آئی جی خدمات انجام دیں، جس کا دورانیہ ڈھائی سال رہا، موجودہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو لگے 9ماہ کا وقت گزرا ہے اور اس دوران چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا اغوا، ایس ایس پی رائو انوار کی معطلی، کلفٹن سے اسلحے کی برآمدگی اور سندھ پولیس میں بھرتیوں جیسے معاملات سامنے آئے۔

انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق 25نومبر کو اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا بتا دیا گیا تھا تاہم اس وقت ان کو ہٹائے جانے کی سفارش وفاق نے مسترد کردی تھی،آئی جی سندھ اور سندھ حکومت کے کرتا دھرتائوں کے درمیان پہلے دن سے اختلافات شروع ہوگئے تھے۔

اے ڈی خواجہ نے پہلے روز ہی بعض افسران کو سندھ میں تعینات کرنے کی سفارش کی تھی اور ساتھ ہی کچھ کی خدمات لینے سے انکار کردیا تھا، اس حوالے سے دو مختلف فہرستیں صوبائی حکومت کے حوالے کی گئیں تھیں لیکن یہ درخواست منظور نہیں کی گئی، اس سال 20 جون کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو کلفٹن سے اغواء کرلیا گیا، اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ایس ایس پی سائوتھ ڈاکٹر فاروق کا تبادلہ کردیا گیاتھا۔

کچھ عرصے کے بعد ایک غیر سیاسی شخصیت کی جانب سے دبائو ڈالا گیا کہ ڈاکٹر فاروق کو ایس ایس پی ایسٹ لگادیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا،اس صورتحال نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور سندھ حکومت کے بڑوں کوآمنے سامنے کھڑا کردیا،16 ستمبر کو اس وقت کے ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے معطل کردیا تھا،اب رائو انوار کو دوبارہ ملیر کا ایس ایس پی تعینات کی جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں لیکن اے ڈی خواجہ کی جانب سے اس قدم کو لئے جانے کی مخالفت کی جارہی تھی۔

10 نومبر کو جیو نیوز نے کلفٹن کے ایک گھر سے اسلحے کی برآمدگی کی خبر نشر کی اور بتایا کہ برآمد ہونے والا اسلحہ مبینہ طور پر ڈاکٹر نثار مورائی کا تھا ، بااثر شخصیات کا خیال تھا کہ میڈیا میں خبر پولیس کے اعلیٰ افسران نے لیک کی، حقیقت یہ ہے کہ اسلحہ شوگر ٹائیکون کے بیٹے کے گھر سے نکلا تھا اوراسلحہ مبینہ طور پر ڈاکٹر نثار مورائی کا ہی تھا جسے ان کے اہل خانہ نے ان کی گرفتاری کے فوری بعد رینجرز کے چھاپے کے ڈر سے منتقل کرا دیا تھا، یہ اسلحہ کراچی کے ایک نامور پولیس افسر کی مدد سے شوگر ٹائیکون کے بیٹے کے گھر منتقل کیا گیا تھا، جس وقت پولیس نے ایک اطلاع پر اس گھر میں چھاپا مارا، اس وقت مقامی پولیس گھر اور اسلحے کے مالک کے نام سے ناواقف تھی۔

سندھ پولیس میں20 ہزار بھرتیوں کا معاملہ بھی درپیش ہے، سندھ پولیس میں اس وقت تک تقریباً 12 ہزار بھرتیا ں کی جاچکی ہیں، یہ بھرتیاں پہلی دفعہ این ٹی ایس سسٹم، فوج اور سی پی ایل سی کی مدد سے کی گئیں جہاں سیاسی سفارش نہ چل سکی، اہم ترین مسئلہ اندرون سندھ گنے کے کاشتکاروں سے گنے کی خریداری کا ہے جہاں پولیس کے ذریعے گنا شوگر ٹائیکون کی مل کو فروخت کرنے کیلئے دبائو ڈالا جاتا ہے لیکن اے ڈی خواجہ کی جانب سے پولیس کو اس معاملے سے دور رہنے کی ہدایت کی جارہی تھیں۔

ذرائع کے مطابق سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے حق میں نہیں تھے لیکن کل وہ بھی بالآخراپنی جماعت کے بڑوں کے سامنے بازی ہار بیٹھے۔

مزید خبریں :