10 جنوری ، 2017
دودھ میں خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ کا سلسلہ جاری ہے، فیصل آباد اور لاہور میں فارملین، یوریا اور نمک اور پانی کی ملاوٹ والا دودھ پکڑا گیا جبکہ کوئٹہ میں دودھ ٹیسٹ کرنے کی کوئی لیبارٹری ہی نہیں ہے۔
دودھ کے نام پر شہریوں کی رگوں میں زہر اتارنے کا کاروبار جاری ہے،لیکن اب پنجاب میں ملاوٹ کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا، پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکشن میں آگئی،کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف لاہور اور فیصل آباد میں بڑی کارروائیاں کی گئیں ۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیموں نے لاہور میں دو ہزار لیٹر اور فیصل آباد میں 8 سو لیٹر ناقص دودھ برآمد کر کے ضائع کردیا۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق فیصل آباد میں دودھ لانے والے 40 ٹینکرز کو چیک کیا گیا تو دودھ میں لاش محفوظ کرنے والا کیمیکل فارمالین اور یوریا موجود تھا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر پی ایف اے شہباز سرور نے بتایا کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والے2 افراد کو حراست میں لیا ہے۔
فیصل آباد میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے کارروائی کرتے ہوئے لاش محفوظ کرنے والا کیمیکل فارملین دودھ میں ملانے والے2افرزد کو حراست میں لیا ہے، جبکہ 40ٹینکرز کی چیکنگ کے بعد مضر دودھ بہا کر ضائع کردیا گیا ہے۔
فوڈ اتھارٹی نے ناقص اور غیر معیاری دودھ کی شہر میں ترسیل کو روکنے کیلئے کارروائی کی، کاروائی کے دوران نڑوالہ روڈ مرضی پورہ کے علاقے میں دودھ لے کر جانے والی 40 گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران 5 گاڑیوں میں ملاوٹی اورغیرمعیاری دودھ موجود ہونے کا انکشاف ہوا، جس پر 800 لٹر دودھ قبضے میں لے لیا گیا۔
دودھ میں سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین اور پانی کی آمیزش تھی،فوڈ اتھارٹی انتظامیہ نے ملاوٹ ثابت ہونے پر 800 لٹر دودھ ضائع کردیا۔
ادھر کوئٹہ کے شہری بھی دودھ کے نام پر زہر پینے لگے،کوئٹہ سمیت صوبے میں ملک ٹیسٹنگ لیب ہی نہیں ہے، صوبائی حکومت نے فوڈ اتھارٹی تو بنائی مگر اسے فعال نہیں کیا،محکمہ صحت کے پاس پر دودھ چیک کرنے کے آلات نہیں ہیں ۔
ڈیری فارم ایسوسی ایشن کے مطابق کوئٹہ کے ڈیری فارموں سے دودھ فروخت کرنے والوں کو ڈیڈھ لاکھ سے2 لاکھ لیٹر دودھ حاصل ہوتا ہے،لیکن شہر میں دودھ کی ضرورت تقریباً 4 لاکھ لیٹر ہے،تقریباً ڈیڑھ سے 2لاکھ لیٹر دودھ کی کمی شکار پور سے لائے گئے دودھ اور پاوڈرسے بنائے دودھ سے پوری کی جارہی ہے جو مضر صحت ہے۔
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں دودھ کے ٹیسٹ کیلئے کوئی لیبارٹری نہیں ہے،محکمہ صحت اور محکمہ لیبر کے پاس جو آلات ہیں ان سے صرف دودھ میں موجود پانی کو چیک کیا جاسکتا ہے۔
بلوچستان حکومت نے ایک سال قبل بلوچستان خوراک کی چیکنگ کیلئے بلوچستان فوڈ اتھارٹی ضرور بنائی لیکن اسے فعال نہیں کیا گیا، اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس اتھارٹی کا ڈی جی تک تعینات نہیں کیا گیا ہے، ڈی سی کوئٹہ کا کہنا ہے کہ جلد شہر میں مضر صحت دودھ کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔