خصوصی رپورٹس
06 فروری ، 2017

’پاکستان کے عشق میں گرفتار ہونے میں وقت نہیں لگا‘

’پاکستان کے عشق میں گرفتار ہونے میں وقت نہیں لگا‘

عرفان آفتاب، برلن جرمنی
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں پاکستان کے عام لوگوں کی معمول کی زندگی کے خوبصورت لمحات پر مبنی تصاویری کتاب ’پاکستان نائو‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔

پاکستان نائو کے مصنف اور فوٹوگرافر مانولو ٹائے پاکستان کی وسیع ثقافت، دلکش نظاروں اور مذہبی تنوع کے مداح بن گئے۔

برلن میں پاکستانی عوام کی روز مرہ کی زندگی کے خوبصورت لمحات پر مبنی تصاویری جھلکیوں کے ساتھ مانولو ٹائے نے اپنے پاکستان میں بیتے وقت کی یادیں بھی مداحوں سے شیر کیں۔

تقریب میں موجود یورپین، جرمن اور پاکستانی شرکاء کا کہنا تھا کہ مانولو ٹائے کی فوٹوگرافی قابلِ تعریف ہے، اس کتاب سے جرمن لوگوں کو نہ صرف پاکستانی معاشرے کے منفرد پہلوؤں سے شناسائی حاصل ہوگی بلکہ پاکستان کے عوام الناس کے اندازِ رہن سہن سے بھی متعارف ہوں گے۔

بک پریمیئر میں شریک پاکستانی طالبہ زارا خان کا کہنا تھا کہ مانولو عام پاکستانیوں کی زندگی کو جس دلچسپ اور مثبت انداز میں جرمن عوام تک پہنچا رہے ہیں اس سے پاکستان کے سافٹ امیج کو بہت فائدہ ہوگا۔

جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹائے تین سال قبل 6ہفتے کے مختصر دورے پر پاکستان گئے تھے،وہ اس دوران سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ثقافتی ورثے سے بہت متاثر ہوئے۔

دستاویزی کتاب ’پاکستان نائو‘ کے لیے مانولو نے 277 تصویروں کا انتخاب تقریباً 15000 تصویروں کے مجموعے میں سے کیا ہے، پاکستانی اوسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے نے خصوصی طور پر مانولو ٹائے کی تخلیقی صلاحیتوں کی تعریف کی۔

شرمین چنائے کا ’پاکستان ناؤ‘ میں کتب بند کی جانے والی تصاویر کے بارے میں کہنا تھا کہ ’مانولو نے پاکستانی عوام کی زندگی کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے‘۔

پاکستان کے دلکش و منفرد پہلو، جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے کی زبانی
کراچی کا ساحل لوگوں کا پسندیدہ تفریحی مقام ہے، ساحل کے نظاروں کے ساتھ پاس لگے ٹھیلوں پر چٹ پٹے اسنیکس سے لطف اندوز ہونے کیلئے بھی یہ اچھی جگہ ہے، کراچی پاکستان کا آبادی اور رقبے کے اعتبار سے سب بڑا شہر ہے،یہاں کے شہریوں کی زندگی کی رفتار پاکستان کے باقی شہروں کے مقابلے میں تیز و مصروف ہے، عموماً موسم گرما میں جب درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچتا ہے تو کراچی کی عوام اکثر ویک اینڈ پر سمندر کے ٹھنڈے پانی کی لہروں کے قریب بیٹھ کر آرام کرتے ہیں۔

ایک تصویر میں کراچی کے ساحل پر ایک صحافی کومل قریشی کو روایتی انداز میں سجےاونٹ پر سواری کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، مانولو ٹائے نے اس تصویر کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اکثر مغربی اور جرمن ذرائع ابلاغ میں پاکستانی خواتین کو تشدد کا نشانہ یا پھر مظلوم کے شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اسی تناظر میں اس تصویر کے ذریعے پاکستانی خواتین کے مثبت پہلو سے متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے،کومل کی طرح بیشتر نوجوان تعلیم یافتہ پاکستانی خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں پراعتماد ہیں اور وہ سماجی مسائل کی اصلاح کے لیے حکمرانوں سے سوال بھی کرتی ہیں۔

مانولو ٹائے کے مطابق پاکستان کے کئی علاقوں میں ایک مرد فوٹوگرافر کے لیے عوامی مقامات پر عورتوں کی تصاویر لینا مناسب نہیں سمجھا جاتا، وہ سمجھتے ہیں کہ اس بات کا تعلق عدم خود اعتمادی سے زیادہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے احترام سے ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پدرانہ نظام آج بھی پاکستانی معاشرے پر حاوی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین کو بالکل آزادیِ رائے کا حق نہیں ہے۔

پاکستان میں روایتی شادی کا تہوارپاکستانی شادی کا جشن ایک طویل تہوار کی صورت میں منایا جاتا ہے، شادی کے جشن کا اختتام ولیمہ یعنی گرینڈ ڈنر پر ہوتا ہے، کثیر تعداد میں دوستوں اور رشتہ داروں کو ولیمہ کا دعوت نامہ دیا جاتا ہے، شادی ہال کے اسٹیج پر دولہا دلہن اہلِ خانہ کی جانب سے دیے گئے لباس اور زیورات پہنے سب کا استقبال کرتے ہیں، پاکستان میں ثقافتی طور پر شادی نہ صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ایک بندھن ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے درمیان بھی رشتہ داری کا سبب بنتا ہے۔

ثقافتی ورثہ مکلی کا قبرستان 10 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پانچ لاکھ قبروں اور مقبروں پر مشتمل ہے، یہ دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے،1981ء میں عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر نامزد کیے جا نے کے باوجود مقبروں اور قبروں کے تحفظ اور بحالی کی اشد ضرورت ہے، سخت موسمی حالات اور تاریخی مقامات کی توڑ پھوڑ ثقافتی ورثے کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں، مکلی کی پہاڑی پر چودہ اور اٹھارہویں صدی کے درمیان سندھ کی تاریخ و تہذیب کے بقایا مثالیں موجود ہیں، راجا، رانیاں، گورنر، اولیاء، علماء اور فلاسفر یہاں اینٹ اور پتھر سے تعمیر کردہ مزاروں میں دفن ہیں۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈصوبہ بلوچستان کے ساحلی گائوں ’گڈانی‘ میں دنیا کا تیسرا بڑا بحری جہاز توڑنے کا مرکز ہے، بحری جہازوں کا قلع قمع کرنے سے قبل ان کو ساحل کے قریب لگایا جاتا ہے، جس کے بعد مزدور اسکریپ میٹل کو ہاتھوں سے اٹھا کر کنارے پر لاتے ہیں، ایک جہاز کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔

ذرائع آمد و رفت کیلئے استعمال ہونے والے آرٹ سے سجے روایتی پاکستانی ٹرک جن کو کپاس اور دیگر اشیاء سے زیادہ سے زیادہ بھرا جاتا ہے، کپاس کی لوڈنگ کے دوران ٹرک کے دونوں اطراف پر یکساں وزن تقسیم کیا جاتا ہے، عام طور پر ہائی وے کے دو لین پر ٹرک پر لوڈڈ کپاس لٹکی ہوتی ہے، ٹرک اترائی کے بعد بنولہ کو پروسیسنگ سے پہلے چل چلاتی دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے، کپاس کے ریشا سوت، دھاگے، کپڑا اور گارمنٹس کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بیج سے کھانے پکانے کا تیل بھی تیار کیا جا تا ہے۔

پاکستان میں اقلیتوں کی زندگی کا طرزِعمل کو بھی مانولو ٹائے نے اپنی کتاب میں نمایاں طور پر دکھایا ہے، دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع شہر سکھر میں بسنے والے ہندو خاندان کی مہمان نوازی سے مانولو ٹائے بے حد متاثر تھے، سکھر کے قریب دریائے سندھ کے ایک جزیرے ’سادھو بیلو‘ کے قدیم مندر میں جانے سے قبل ہندو خواتین رنگا رنگ لباس میں ملبوس ہیں،مانولو نے اس حوالے سے بتایا کہ جب وہ سکھر میں تھے تو پاکستان میں مذہبی کشیدگی کی وجہ سے، سیکیورٹی بہت سخت تھی اور مسلمان یا عیسائی مقامی ہندوؤں کی اجازت کے بغیر مندر کا دورہ نہیں کر سکتے تھے۔

حاصل پور میں کشتی کا مقابلہ یک روایتی کھیل کے طور پر کشتی پاکستان کے دیہی علاقوں میں لڑی جاتی ہے، صوبہ پنجاب میں اس روایتی کھیل کو ’کشتی‘ کہا جاتا ہے جبکہ صوبہ سندھ میں یہ ’ملاکھڑے‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بعض دیہی علاقوں میں سالانہ میلوں کے دوران اس کشتی کے مقابلوں کو مرکزی توجہ حاصل ہوتی ہے، کشتی میں طاقتور مرد پہلوان میدان میں ایک دوسرے کےمدِ مقابل ہوتے ہیں، پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اس کھیل کو جوش و خروش کے ساتھ پسند کیا جاتا ہے۔

شاہ فیصل مسجد کے پیش امام سے ملاقات کے حوالے سے بھی مانولو نے کتاب کی رونمائی تقریب کے دوران شرکا کو بتایا، مانولو کا کہنا تھا کہ مکالمے کے دوران پیش امام صاحب نے جب میرے عقیدے کے بارے میں سوال کیا تو میں سمجھا کہ اب امام صاحب مجھے دینِ اسلام کا درس دیں گے لیکن حقیقتاً اس کے برعکس ہوا، امام صاحب نے مانولو کو بین المذہب ہم آہنگی اور محبت کا پیغام دیا، اب مانولو اور فیصل مسجد کے پیش امام سماجی ویب سائٹ فیس بک پر ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

’پاکستان ناؤ‘ کتاب میں جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹائے نے پاکستان کی صوفی ثقافت کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں، لاہور میں ہر جمعرات کو بابا شاہ جمال ؒکے مزار پر ان کے مریدوں کی جانب سے بذریعہ دھمال خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، درگاہ پر صوفیانہ موسیقی ’قوالی‘ سے محظوظ ہونے کیلئے لوگ جمع ہوتے ہیں، صوفی ملنگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کے ساتھ روحانی انداز میں خدا سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

پشاور کی مہمان نوازی میں چائے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، پشاور کے مشہور 'قصہ خوانی بازار میں ایک مقامی چائے کی دکان کی چائے کا ذائقہ انولو ٹائے کو آج بھی یاد ہے، پاکستان میں ہر مہمان کو چائے کی پیشکش ثقافت کا اہم جز ہے، شمالی پاکستان میں ایک کہاوت کے مطابق ’’چائے کی پہلی پیالی اجنبی ساتھ پیتے ہیں، دوسری پیالی، ایک معزز مہمان کی نشانی ہے جبکہ چائے کی تیسری پیالی کے ساتھ آپ خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں‘‘۔

مزید خبریں :