19 اپریل ، 2017
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں اختلاف کی شدت، معاملہ شکوؤں سے نکل کر احتجاجی تحریک تک جا پہنچا، بات الزامات، اختیارات اور اداروں پر قبضے سے نکل کر رینجرز اختیارا ت اور گیس سپلائی روکنے تک جا پہنچی ہے۔
لگتا ایسا ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ ان تمام معاملات کو نیا رخ دے گا جو سیاسی فضاء میں شدت بھی لا سکتا ہے یا پھر نیا خاموش مفاہمتی فارمولا جنم لے گا۔
پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت میں خاموش مفاہمت دم توڑ رہی ہے،میاں نواز شریف کے سندھ میں سیاسی جلسوں اور ترقیاتی کاموں کے لیے کروڑوں روپے کے اعلانات بھی پیپلزپارٹی کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے عملاً سربراہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کی گمشدگی بھی وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ بن گئی ہے، اشفاق لغاری، غلام قادر مری کے علاوہ کچھ اورلوگ بھی لاپتہ ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں یا سامنے نہیں لائی جارہیں۔
آئی جی سندھ کی تبدیلی، نوری آباد گیس پاور پلانٹ کا معاملہ، گیس، پانی، لوڈشیڈنگ اور رینجرز کے اختیارات سمیت کئی معاملات پر وفاق اور سندھ کے درمیان تنازعات شدت اختیار کرگئے ہیں۔
مردم شماری کے معاملے پر بھی پیپلزپارٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور عدالت میں درخواستیں بھی دائر کردی ہیں، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے الزامات کی سیاست عروج پر ہے۔
مسلم لیگ کے وزراء پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان کے قریبی دوستوں کو براہ راست سندھ ترقیاتی منصوبوں میں شیئرہولڈر ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں،پیپلز پارٹی کے رہنما اس کا دفاع کرتے ہوئے اس کی تردید بھی کررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے سندھ بھر میں وفاقی اداروں، وزیرداخلہ اور مسلم لیگ ن کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں آصف علی زرداری نے گونواز گو ریلی کا اشارہ بھی دے دیا، انٹرویو میں آصف علی زرداری نے اپنے لاپتہ ہونے والے ساتھیوں پر بھی بات کی اور کہا کہ میرے ساتھ آنے والوں کو ہراساں کیا جارہاہے، مجھے پرواہ نہیں میرے کتنے بھی ساتھی لاپتہ ہوجائیں۔
انہوں نے نوازشریف کے رابطہ نہ کرنے کا شکوہ بھی کردیا اور کہا کہ خود رابطہ کروں گا توپارٹی ورکرز میں مایوسی پیدا ہوگی۔
آصف علی زرداری نے آئی جی سندھ کے معاملےپر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس معاملے کو صوبائی خودمختاری اور آئندہ انتخابات سے جوڑ دیا۔
آصف علی زرداری اپنے بیٹے اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی حفاظت کے لیے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو حفاظتی اصولوں کو سختی سے اپنانے کی ہدایت کررہے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن سمیت دیگر رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات پر بھی پیپلزپارٹی کو شدید تحفظات ہیں،یہ تمام معاملات گزشتہ دو ماہ کے دوران پروان چڑھے ہیں۔
دوسری جانب پاناما کیس کا فیصلہ تمام سیاسی اکائیوں کے لیے اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے، اس فیصلے کے بعد وفاق میں حکومت کی پوزیشن دیکھتے ہوئے سیاسی ماحول میں شدت آسکتی ہے یا پھر کوئی نیا خاموش مفاہمتی فارمولا جنم لے گا۔