21 اپریل ، 2017
سپریم کورٹ پانامافیصلے کے کچھ منفرد نکات ہیں ۔تاریخ میں پہلی مرتبہ جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم میں دو مالیاتی اداروں کے ریگولیٹر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے نمائندے شامل ہوں گے۔
یہ بھی پہلی مرتبہ ہے کہ عدالتی حکم پر جے آئی ٹی میں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کی جائیں گی جس میں وزیراعظم اور ان کے بیٹوں سے بیرون ملک فیکٹریوں، ملز اور کمپنیوں کے قیام اور سرمائے کے لئے ترسیلات زر کی تحقیق کی جائے گی۔
لفظ ’وائٹ کالر کرائم‘ کی تعریف میں جائیں تو قومی احتساب کے قانون میں اس کی تشریح بڑی واضح ہے۔
ایسے اعلیٰ سرکاری اور نجی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ جو کسی مالی بدعنوانی کے مرتکب ہوں ،وہ وائٹ کالر کرائم کے زمرے میں آتا ہے جس میں صدر، وزیراعظم، گورنر ، وزرائے اعلیٰ اور وزراء ، سرکاری اور عسکری اداروں کے ملازمین ، بینک، کارپوریشن، اتھارٹیز وغیرہ دائرہ کار میں آتے ہیں ۔
دوسری طرف نجی اداروں میں کمپنیز اور کارپوریٹ باڈیز، اسپانسرز، چیئرمین ،چیف ایگزیکٹو، منیجنگ ڈائریکٹر، منتخب ڈائریکٹرز وغیرہ بھی مالی بدعنوانی کے مرتکب ہونے پر وائٹ کالر کرائم کے قانون میں شامل ہیں۔
یہ بھی پہلی مرتبہ ہے کہ عدالتی نگرانی میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم اپنی تحقیقات دو ماہ میں مکمل کرے گی بلکہ ہرپندرہ روز میں اپنی کارکردگی رپورٹ خصوصی بنچ کو پیش کرے گی۔
ماضی میں ہم یہ مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ ننانوے فیصد سے زائد جے آئی ٹیز فوجداری مقدمات کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی گئیں ۔۔جہاں یہ ایک اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد جے آئی ٹی ہوگی وہاں اس میں شامل تحقیقاتی ٹیم کو ایک بڑا ٹاسک ملا ہے جو آئندہ تحقیقات کے شعبے میں اپنی تحقیق کی بنیاد پر کئی نئے معاملات سامنے آسکتے ہیں ۔
تحقیق کے طریقہ کار میں خصوصاً مالیاتی ریگولیٹری اداروں کے لئے خاصی اہم پیش رفت ہوسکتی ہے جس کی بنیاد پر ان معاملات کو مانیٹر کرنے اور روک تھام کے لئے طریقہ کار اور قوانین میں ترامیم کرنے میں مدد مل سکے گی ۔