25 جون ، 2017
شہاب عمر
کوئٹہ میں 23 جون کے دھماکے نے کئی خاندانوں سے ان کے سہارے چھین لیے، ان میں شہید پولیس کانسٹبل ساجد علی کا بدنصیب خاندان بھی شامل ہے۔
23 جون کی صبح گلستان روڈ کوئٹہ پر خودکش دھماکے میں 12 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوئے، شہیداہلکاروں میں کوئٹہ کے علاقے سرکی روڈ کارہائشی ساجد علی بھی شامل تھا، جو دھماکے کے وقت شہدا چوک پر اپنا فرائض انجام دے رہا تھا کہ خود کش حملے میں جان کی بازی ہار گیا۔
ساجد علی ایک انتہائی پسماندہ اور غریب خاندان سے تعلق رکھا تھا، والد اور والدہ انتقال کرچکے ہیں جبکہ بڑا بھائی معذور ہے اور عرصے سے بیمار پڑا ہے ، اس صورت حال میں گھر کا سربراہ ساجد تھا اور گھر کا ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ واحد کفیل بھی تھا۔
ساجد کے 3 بھائی اور7 بہنیں ہیں ، دو چھوٹے بھائی اور3 غیر شادی شدہ بہیں ساجد کی زیر کفالت تھیں،ایک تو گھر میں پہلے سے غربت تھی اب اس متاثرہ گھرانے کی معاشی حالت کیا ہوگی ،یہ گھر کے افراد ہی جانتے ہیں ۔
شہید کے بھائی عابد علی نے بتایا کہ ساجد کی6 ماہ قبل منگنی ہوئی تھی اور عید کے بعد شادی ہونا تھی اور شادی کی تیاریاں بھی جاری تھیں کہ یہ درد اور غم ناک واقعہ پیش آیا، اس واقعہ کے بعد گھر کا ماحول بہت متاثر ہوا ہے،گھر کے افراد نفسیاتی اور ذہنی طور پر سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔
ادھر عید کے موقع پر کوئٹہ میں ایک جانب لوگ بازاروں میں عید کی تیاریوں اور خریداریوں میں مصروف ہیں لیکن دوسری جانب دہشت گردی سے متاثرہ یہ بد قسمت خاندان عید کی آمد اور خوشیو ں سے بے خبر غم کے عالم میں ڈوبا ہوا ہے۔
ساجد کے خاندان سمیت واقعہ میں دیگر شہدا کے لواحقین کا ارباب اقتدار سے صرف یہی سوال ہے کہ وہ کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟، کب تک ماؤں کی گود اجڑتی رہے گی؟، کب تک باپ جوان بیٹوں کے جنازے کندھا دیتے رہیں گے؟، کب تک بچے باپ اور لواحقین بےسہارا ہوتے رہیں گے؟