29 جون ، 2017
تین برس پہلے 15 سالہ صنم تعلیم چھوڑ کر نوکری کی تلاش میں گھر سے نکلی اور کچھ ہی دنوں میں اسے سہیلی کی سفارش پر لاہور کے ایک بیوٹی پارلر میں کام پر رکھ لیا گیا۔
صنم کو ہیئر کٹنگ، فیشل، تھریڈنگ، مینی کیور، پیڈی کیوراور مساج کی تربیت دی گئی۔ اس نے پوری توجہ اور محنت سے بہت جلد کام میں مہارت حاصل کر لی جس کے بعد صنم کو دیگر لڑکیوں کے ساتھ پارلر میں کام پر رکھ لیا گیا۔
صنم وہاں پوری محنت اور دل لگا کر اپنا کام کرنے لگی، وہ بہت خوش تھی اور سمجھ رہی تھی جلد اس کے دن پھرنے والے ہیں۔
اپنے کام کی وجہ سے وہ پارلر کے مستقل کسٹمرز میں مشہور ہونے لگی۔ ابھی اسے کام کرتے کچھ وقت ہی ہوا تھا کہ پارلر کی مالکن نے اسے ایک گاہک کی ویکسنگ کرنے کے لیے کہا۔
اس روز پارلر میں صرف 3 لڑکیاں کام پر آئی تھیں لیکن صنم کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ اسے ویکسنگ نہیں سکھائی گئی تھی لہٰذہ اس نے انکار کر دیا جس پر مبینہ طور پر مالکن نے غصے میں صنم کو سب کے سامنے مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور اسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ اس واقعے کے اگلے روز صنم نے نوکری چھوڑ دی۔
صنم کو کئی مہینوں تک نوکری نہیں ملی کیوں کہ پارلر کی مالکن نے دیگر بیوٹی پارلر والوں کو فون کرکے صنم کو کام پر رکھنے سے منع کر دیا تھا۔
ایک لمبی بے روز گاری کے بعد صنم کو لاہور ہی کے علاقے شادمان کے ایک چھوٹے سے پارلر میں نوکری مل گئی۔ اس واقعے کو 3 برس بیت گئے لیکن صنم اس دن کی ذلت کو بھلا نہیں سکی ہے۔
بیوٹی پارلر ایک منافع بخش کاروبار ہے جو ملک کے ہر محلے اور علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں تو کچھ بین الاقوامی پارلرز کی شاخیں بھی موجود ہیں لیکن ابھی تک اس انڈسٹری کو حکومتی حلقوں نے ریگولیٹ کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔
پاکستان میں بیوٹی پارلروں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر پارلر مالکان ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے کاروبار کو رجسٹر ہی نہیں کرواتے۔
سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے مطابق پورے ملک میں صرف 40 بیوٹی پارلر رجسٹرڈ ہیں جب کہ ہئیر اینڈ بیوٹی ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں 287 پارلر ٹیکس دیتے ہیں اور ان کی ماہانہ آمدنی 30 سے 40 لاکھ روپے ہے۔
لیکن یہ اعداد و شمار بھی غلط لگتے ہیں کیوں کہ کم لاگت میں باآسانی شروع ہو جانے والا یہ کاروبار ملک بھر میں سب ہی رہائشی علاقوں اور بازاروں میں جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے۔
ٹیکس چوری سے بھی زیادہ پریشان کن وہ زیادتیاں ہیں جو ان خوبصورتی کے اڈوں کے بند دروازوں کے پیچھے جاری ہیں۔ پاکستان کے بہترین پارلر بھی محنت کشوں کے حقوق کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
کاریگر لڑکیوں کی تنخواہیں کم اور کام کے اوقات زیادہ ہیں۔ ساتھ ہی دیگر مراعات اور سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جن لڑکیوں نے اس شعبے کا انتخاب کیا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو یا تو مالی مشکلات کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر یا گھر والوں کی طرف سے صرف ایسی نوکری کی اجازت ملنے کے باعث جہاں ان کا واستہ مردوں سے نہ ہو اس پیشے کو اختیار کرتی ہیں۔
اس کاروبار کے اوقات کار بھی کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ لڑکیوں کو 9 سے 12 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنا ہوتا ہے۔
خصوصاً عید بقر عید اور شادیوں کے سیزن میں لڑکیوں سے رات گئے تک کام کروایا جاتا ہے۔ نئی کاریگر لڑکیوں کی تنخواہ صرف 1500 سے 5000 روپے کے درمیان ہوتی ہے جب کہ حکومت نے محنت کشوں کی کم از کم اجرت 15000 روپے مقرر کی ہے۔
بیوٹی پارلر کا کام سیکھنے والی ایک اور لڑکی ںوری کا کہنا ہے کہ وہ دن میں 3 سے 4 فیشل کرتی ہے۔ "ہمارے پارلر میں فیشل کروانے کی فیس 6000 روپے جب کہ میری ایک ماہ کی تنخواہ صرف 5000 روپے ہے"۔
اس شعبے میں کام شروع کرنے سے پہلے لڑکیوں سے 3 سال تک کام نا چھوڑ نے کے بانڈ پر دستخط بھی کروائے جاتے ہیں جب کہ اگر کوئی لڑکی اس مدت سے پہلے کام چھوڑنا چاہے تو اسے جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔
یہ ایک طرح سے جبری مشقت ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ ملک میں جبری مشقت غیر قانونی عمل ہے۔ یہی نہیں بیشتر پارلر مالکان لڑکیوں کو کسٹمرز کے سامنے بے عزت کرنا اور کبھی کبھی تو مارنا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
جہاں حالات ایسے ہوں وہاں ٹرانسپورٹ، میڈیکل یا دیگر سہولیات کا تصور ہی نہیں۔
ریحانہ گزشتہ 17 سال سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ کچھ سال پہلے ان کی نوکری اس وقت خطرے میں پڑ گئی تھی جب ایک حادثے میں اس کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
ریحانہ نے بتایا کہ حادثے کے بعد اسے چھٹی لینا پڑی۔ پارلر کی مالکن نے اسے ایک مہینے کی تنخواہ تو دے دی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ چوٹ ٹھیک ہونے میں مزید چند ہفتے لگ سکتے ہیں تو ریحانہ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
2009 سے پاکستان میں کام کرنے والی برطانیہ کی ایک معروف بیوٹی پارلر کمپنی کے مالک کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برانڈ ہونے کے ناطے وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ان کے ملازمین کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
کمپنی کی کریٹو ڈائیریکٹر جوجو حیدر کہتی ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتیں کہ کون سے پارلر قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
جوجو حیدر کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ صرف محنت کشی کے قوانین کی پامالی تک محدود نہیں بلکہ اس شعبے سے منسلک لڑکے اور لڑکیوں کے انسانی حقوق بھی پامال کیے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ کارکنوں میں اپنے حقوق کی بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔
محنت کشوں کے حقوق کی پامالی صرف بیوٹی پارلروں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کی اکثر صنعتوں میں بھی انہیں بنیادی حقوق تک حاصل نہیں۔
حال ہی میں ایک معروف برانڈ کے ملازمین کے ساتھ ہونے والا غلاموں جیسا سلوک سوشل میڈیا پر سامنے آیا۔
ملازمین کے مطابق انہیں اپائنمنٹ لیٹر جاری نہیں کیے جاتے اور ان کی اجرتیں کم رکھی جاتی ہیں جب کہ لنچ بریک یا باتھ روم بریک پر بھی پابندیاں لاگو ہیں۔
ان ملازمین کے احتجاج سے برانڈ کو سخت عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ عوامی دباؤ کے بعد کمپنی نے کم از کم تنخواہ کو حکومت کی مقرر کردہ رقم تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں پنجاب حکومت نے بیوٹی پارلر انوائس مانیٹرنگ سسٹم کا آغاز کیا ہے تاکہ بیوٹی پارلروں سمیت سروس سیکٹر سے منسلک دیگر کاروبار کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد سہولت فراہم کرنے والے افراد اور کمپنیوں کو ریگیولیٹ کرنا ہے۔ لیکن یہ کام عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔
نوٹ : اس مضمون میں شناخت ظاہر نا کرنے کے لیے نام اور جگہیں تبدیل کر دی گئی ہیں اور کسی بھی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہو گی۔