30 جون ، 2017
معلوم ہوا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) پر چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور 2016 میں شوگر ملز کے حوالے سے جاری تحقیقات کے دوران ایس ای سی پی کی دستاویزات میں پرانی تاریخوں کے دستخط کے الزامات درست ثابت ہوئے ہیں اور پاناما کیس کی تحقیقات میں یہ بات شریف خاندان کیلئے یہ بات ایک دھچکے سے کم نہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے کئی لوگ مصیبت میں آ سکتے ہیں کیونکہ ایس ای سی پی حکام نے تصدیق کی ہے کہ شریف خاندان کی شوگر ملز کیخلاف تحقیقات 2013ء میں ختم کر دی گئی تھیں اور اس معاملے پر ایس ای سی پی کی دو میں سے ایک فائل میں چوہدری شوگر ملز کی بندش کے حوالے جون 2016ء میں پرانی تاریخوں کے دستخط کیے گئے تھے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پرانی تاریخوں میں دستخط کیے جانے کی تصدیق ہو چکی ہے، ایس ای سی پی کے سینئر عہدیدار اس صورتحال پر منقسم نظر آتے ہیں اور اس بے ضابطگی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس معاملے پر ایف آئی اے کی تحقیقات کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں حالانکہ ایف آئی اے کی تحقیقات مکمل ہونا باقی ہے جب کہ ایس ای سی پی کے کچھ سینئر عہدیدار سپریم کورٹ میں اپنا بیان جمع کرانے پر غور کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین بھی اپنا بیان عدالت میں جمع کرانے پر غور کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ای سی پی کے موجودہ چیئرمین کا اصرار ہے کہ وہ اس معاملے میں ملوث نہیں لیکن جن افسران نے پرانی تاریخوں کے دستخط کیے تھے ان کا الزام ہے کہ انہوں نے چیئرمین کے دباؤ میں آ کر پرانی تاریخوں کے دستخط کیے تھے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کیس میں چیئرمین ایس ای سی پی قصور وار ثابت ہوتے ہیں یا متعلقہ افسران لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افسران نے یہ کام خود ہی کیا یا حکمران شریف خاندان کے دبائو میں آ کر کیا۔
صورتحال سے آگاہ حکام کا کہنا ہے کہ چوہدری شوگر مل کیخلاف 2011ء میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دبائو پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی گئیں لیکن یہ تحقیقات 2013ء میں بند کر دی گئیں لیکن ایس ای سی پی کی فائلوں میں اس کا ذکر شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ایس ای سی پی کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایس ای سی پی کے کارپوریٹ سُپرویژن ڈپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) میں چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ کی دو فائلیں بنائی گئی تھیں، اُن میں سے ایک منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے حوالے سے تھی جو برطانیہ کے سی اے کو لکھے گئے خط کی صورت میں تھی جبکہ دوسری فائل معمول کی تحقیقات کے حوالے سے تھی۔
کہا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے جاری تحقیقات کی فائل کے مطابق یہ کیس مئی 2013ء میں بند کر دیا گیا۔ تاہم یہی بات معمول کی تحقیقات کی فائل میں نہیں لکھی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریکارڈ پر دستیاب شواہد میں 2013ء میں برطانوی سی اے کو لکھا گیا کیس بندش کا خط، منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے حوالے سے فائل کا متعلقہ نوٹ اور سیکشن 263؍ کے تحت برآمدی فروخت کی عدم شمولیت کی آبزرویشن کا حصہ شامل ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ پہلے ہی بند کیا جا چکا تھا۔
ذرائع کے مطابق جُون 2016ء میں ایس ای سی پی کے کارپوریٹ سُپرویژن ڈپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) کے سربراہ علی عظیم اکرام کو موجودہ چیئرمین کے دفتر میں طلب کیا گیا جہاں مسٹر طاہر محمود کمشنر (سی ایس ڈی)، مسٹر عابد حسین اور ڈائریکٹر سی ایس ڈی مس ماہین فاطمہ پہلے ہی موجود تھے اور چیئرمین کی میز پر چوہدری شوگر ملز کی فائلیں کھلی ہوئی موجود تھیں۔
مبینہ طور پر چیئرمین نے افسران کو ہدایت دی کہ وہ اس فائل پر پرانی تاریخوں کا نوٹ لکھیں تاکہ تصدیق ہو سکے کہ متعلقہ تاریخ پر انکوائری بند کی جا چکی ہے۔ چیئرمین کے مبینہ دباؤ میں آ کر، کہا جاتا ہے کہ، مس ماہین فاطمہ نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ نوٹ تیار کیا۔
نوٹ پر علی عظیم اکرام نے دستخط کیے جبکہ عابد حسین نے اس تعمیل کے حوالے سے طاہر محمود کو مطلع کیا تاکہ چیئرمین کو آگے تصدیق کی جا سکے کہ ان کے حکم کی تعمیل ہو چکی ہے۔ عظیم اکرام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر اور مرضی سے اس نوٹ پر دستخط نہیں کیے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کام مخصوص ہدایت کے تحت اور انتہائی جلد بازی میں اور دباؤ میں آ کر کیا۔ لیکن اسی موقع پر، متعلقہ افسران کا دعویٰ ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ انہوں نے جو کیا وہ غیر قانونی تھا۔
ایک ذریعے عظیم اکرام کے حوالے سے کہا کہ ’’میں خالصتاً یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہ معاملہ پہلے ہی بند ہو چکا ہے اس لئے مجھے صرف اپنے ریکارڈ میں معمولی تنسیخ کی ہدایت کی گئی جس کا اس معاملے پر یا بیرونی سطح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ یہ بھی وضاحت پیش کی گئی کہ یہ واقعہ 10؍ ماہ قبل اُس وقت پیش آیا جب جے آئی ٹی کا کوئی وجود تک نہیں تھا۔ لہٰذا، اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں تھا چیئرمین کی ہدایت پر عمل کرنے میں جے آئی ٹی یا پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کو گمراہ کرنے کا کوئی ارادہ شامل تھا۔
ذرائع کے مطابق، ایک اور افسر عابد حسین 2016ء میں ایس ای سی پی کے کارپوریٹ سُپرویژن ڈپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) کے سربراہ تھے اور انہوں نے سپریم کورٹ میں فوری جمع کرائے گئے اپنے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ جون 2016ء کے وسط میں ایس ای سی پی کے کارپوریٹ سُپرویژن ڈپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) کے کمشنر طاہر محمود نے انہیں بلایا اور کہا کہ (کیس ڈیلنگ افسر) مس ماہین فاطمہ کو ایڈوائس لکھیں کہ وہ چیئرمین کے لئے چوہدری شوگر ملز کے کیس کی بریفنگ تیار کریں کیونکہ کسی نیوز چینل نے اس معاملے پر ایک ٹاک شو نشر کیا تھا۔ اس صورتحال پر چیئرمین پریشان تھے اور اس کیس کی بریفنگ چاہتے تھے۔
طاہر محمود نے ماہین فاطمہ سے کیس کی بریفنگ تیار کرنے کو کہا، جسے کمشنر کو بھیجا گیا جنہوں نے اس کا مسودہ چیئرمین کو بھجوانے کی ایڈوائس کی۔ کہا جاتا ہے کہ مس ماہین نے چیئرمین کو آگاہ کر دیا تھا کہ چوہدری شوگر ملز کی جانب سے معلومات فراہم کیے جانے کے بعد یہ کیس 2013ء میں بند کیا جا چکا ہے حتیٰ کہ چوہدری شوگر ملز سے ملنے والی معلومات کی جانچ کے بعد ایس ای سی پی اُس خط سے بھی دستبردار ہو چکا ہے جو برطانوی حکام سے معلومات کے حصول کے لئے لکھا گیا تھا۔
اُس کے بعد چیئرمین ایس ای سی پی نے علی عظیم اکرام (ایگزیکٹو ڈائریکٹر انشورنس) کو طلب کیا جو 2013ء میں ایس ای سی پی کے کارپوریٹ سُپرویژن ڈپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) کے سربراہ تھے۔ اُن کی بھی یہی رائے تھی کہ یہ معاملہ 2013ء میں بند کیا جا چکا تھا۔ تاہم، چیئرمین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر یہ کیس 2013ء میں بند ہو چکا ہے تو نوٹ شیٹ پر یہ بات کیوں درج نہیں کی گئی۔
عابد حسین نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ چیئرمین نے ان افسران کو ہدایت کی کہ فوری طور پر فائل پر پرانی تاریخوں کا ایک نوٹ لگائیں جس میں تصدیق کی جائے کہ متعلقہ تاریخ پر یہ انکوائری بند ہو چکی ہے۔ انہوں نے مس ماہین اورعلی عظیم اکرام کو بتایا کہ ریکارڈ پورا کرنے کیلئے وہ یہ نوٹ فائل پر لگائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 2011ء میں شریف خاندان کی چوہدری شوگر ملز کیخلاف انکوائری اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دباؤ پر شروع کی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب جے آئی ٹی نے اس خبر میں بتائے گئے چار افراد (جن کے نام مذکورہ بالا سطور میں موجود ہیں) میں سے ایک کو طلب کیا تو اُس افسر نے اعتراف کیا کہ ان سب نے پرانی تاریخوں کا نوٹ فائل میں شامل کیا تھا۔ جے آئی ٹی نے اس اقدام کو سرکاری ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قرار دیا جس کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لئے ایف آئی آر درج کی گئی۔ جے آئی ٹی نے اُس افسر کا نام ظاہر نہیں کیا۔ ایک ذریعے نے اُس افسر کا نام اِس نمائندے کو بتایا ہے لیکن رپورٹ میں اس کا نام شامل نہیں۔
اگرچہ ایس ای سی پی کے چیئرمین اس صورتحال پر موقف دینے کے لئے دستیاب نہیں تھے لیکن جے آئی ٹی کے الزامات پر سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں وہ واضح الفاظ میں الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ چوہدری شوگر ملز کے خلاف تحقیقات 2013ء میں بند کی گئی تھیں۔
ایس ای سی پی کے جواب، جو اٹارنی جنرل کے توسط سے جمع کرایا گیا تھا، میں ادارے کا کہنا ہے کہ ’’برطانوی سی اے کے ساتھ باہمی قانونی معاونت کے لئے کی جانے والی خط و کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ انویسٹی گیشن 2013ء میں موجودہ چیئرمین کے تقرر سے پہلے ہی بند کی جا چکی تھی۔‘‘