30 جون ، 2017
فلم وہی جو دیکھنے والوں کو بھائے، بنانے والوں کے لیے پیسے کمائے، سینما میں فلم بِین بھر بھر کر لائے، تھیٹر میں فلم دیکھنے والوں سے خوب قہقہے لگوائے، تالیاں اور سیٹیاں بجوائے، اینٹر ٹینمنٹ کی” شوگر کوٹڈ“ گولیوں میں سچا لیکن کڑوا پیغام سمجھا کر جائے اور خاص طور پر ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ دیکھ کر کر پاکستانی فلموں کے ریویو لکھنے والوں کو بالکل پسند نہ آئے۔
میٹھی عید پراس بار ایسی ہی ایک فلم ریلیز ہوئی ۔رنگوں سے سجی، خوشیوں سے بھری عام لوگوں کی خاص ”مہرالنساء وی لب یو“ نے سنیماؤں میں فلم دیکھنے والوں کی عید کا مزہ ڈبل کردیا۔ میں جب فلم دیکھنے جارہا تھا میرے ذہن میں دو خدشات تھے ایک فلم بالی وڈ کی ”پران جائے پر شان نہ جائے“ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے دوسرا نیئر اعجاز کا کردار بالی وڈ کی ”مہارانی“ کی طرح کا ہوگا۔
فلم دیکھنے کے بعد نہ صرف دونوں خدشات غلط ثابت ہوئے بلکہ کب دو گھنٹے فٹا فٹ گزرے کچھ معلوم ہی نہیں ہوا۔ فلم میں ظاہر ہے کچھ منفی پہلو بھی تھے لیکن مثبت باتوں کا ”ہیرو“ منفی چیزوں کے” ولن“ پر غالب رہا۔
فلم میں کچھ غلطیاں اور جھول تھے لیکن یہ فلم ہے وہ بھی کامیڈی اینٹر ٹینمنٹ مصالحہ اس میں اگر حقیقت کے رنگ ڈھونڈنے ہیں تو سینما جانے کا فائدہ۔
ہدایتکار یاسر نواز کا ”رانگ نمبر“اس بار بھی صحیح نشانے پر لگا جس کی وجہ انھیں علم ہے کہ فلم بینوں کو عید پر سینما میں کیسے فلم دیکھنی ہے، انہہوں نے تو ہمیشہ صاف کہا ہے کہ وہ یہ سوچ کر فلم نہیں بناتے کہ یہ فلم بچوں نے دیکھنی ہے یا بڑوں نے ان کا تو ہدف صرف ایک تفریحی کامیاب کمرشل فلم دینا ہے جس کو دیکھ کر لوگ بار بار سینما آئیں۔
کیونکہ فلم کے کمزور پہلو کم ہیں تو پہلے اِن پر بات ہوجائے یاد رہے یہ صرف ہماری نظر، ہمارا زاویہ ہے ہوسکتا ہے فلم بنانے والوں کی یہ مجبوری ہو یا فیصلہ اور دیکھنے والوں کو برا نہ لگا ہو تو بہتر ”جج“وہی ہیں اور وہی فیصلہ کرسکتے ہیں ہم تو صرف رائے کی اظہار کا حق رکھتے ہیں۔
فلم کوئی بھی ہو اس پر محنت اور پیسہ لگتا ہے۔ فلم بنانے والا ہمیشہ فلم کا ریویو لکھنے والے سے بڑا ہوتا لیکن حتمی فیصلہ عوام کرتے ہیں جو فلم دیکھنے سینما گھروں میں پیسہ خرچ کر کے آتے ہیں۔
فلم میں کئی ذومعنی الفاظ ہیں جو بڑی ”چالاکی“ سے استعمال کیے گئے اور دیکھنے والوں کو پسند بھی آئے لیکن ”لرننگ ڈرائیونگ“ لائسنس کے ”سِمبل“ کا سین اور علی کا مہرالنسا کے ساتھ آئس کریم کھانے جانے سے پہلے ایک مکالمہ فلم میں نہیں بھی ہوتا تو فلم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بلکہ فلم کے اس ڈیڑھ سین کی وجہ سے کچھ لکھنے والوں نے اِسے ”ولگر“ فلم قرار دے دیا حالانکہ ایسا بالکل نہیں”مہرالنساء وی لب یو “ 95فیصد مکمل فیملی فلم ہے کیونکہ فلم میں استعمال ہونے والے باقی ذومعنی الفاظ ماحول کو بدمزہ نہیں کرتے ویسے یہ ذمہ داری سینسر والوں کی بنتی ہے کہ وہ ان چیزوں کا خیال کرے، سینسر کرے یا پھر ریٹنگ وارننگ کے ساتھ دے ۔
فلم کے ایک منظر میں ارشد محمود اور جاوید شیخ دونوں برف کے درمیان سڑک پر ٹہل رہے ہوتے ہیں اُس وقت دونوں کے لباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جاوید شیخ کراچی سے نہیں بلکہ گلیات کے مقامی ہیں اور گلیات کے مقامی ارشد محمود نے اپنے آپ کو پورا ڈھانپا ہوا ہوتا ہے۔
چھوٹے محلوں میں بھی اب سب سے زیادہ شور جنریٹر کی آواز کا ہوتا ہے جو اس فلم میں سنائی نہیں دیا۔
فلم کے ولن فراز نواز کی آواز ایسے آرٹسٹ کی لینی چاہیے تھی جس کی آواز سے لوگ مانوس نہ ہوں۔ ان کے کردار پر مشہور آواز کی ڈبنگ حاوی نظر آئی اور ویسے اداکاری اور تاثرات سے تو نہیں لیکن ایک دو جگہ ان کی چال ڈھال نے ان کے مرحوم والد اور عظیم ٹی وی آرٹسٹ فرید نواز بلوچ کی یاد ضرور دلادی۔
جاوید شیخ اور ارشد محمود کی ٹیلیفونک باتوں میں بھی ٹیکنیکل باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا،جاوید شیخ کی پوری فلم کے دوران ایک ہی بار مونچھیں تبدیل ہوتی ہیں وہ بھی آئٹم سانگ”مرحبا“ کے دوران۔
واٹس ایپ، فیس بک اور جدید ڈی ایس این جی کے دور میں لڑکا لڑکی کا بغیر دیکھے ایک دوسرے کو پسند کرنا بلکہ شادی تک کیلئے رضا مند ہونا ایک دوسرے سے چٹھی کے ذریعے بات کرنا ،پرس میں بچپن کی تصویر رکھنا،فلم میں مصیبت کے وقت تانگے کا استعمال کرنا ایک ایسے وقت میں جب اپنا ہیرو دبئی یا مسقط سے نہیں بلکہ سی پیک والے چائنا سے آیا ہو تھوڑا عجیب لگا لیکن برا نہیں۔
ویسے بائیک کے بعد تانگہ واحد سواری ہے جس کی عکاسی آسان اور مکمل ہوتی ہے۔ فلم میں محلے کی” میٹنگ“ کے وقت کا ہائی اینگل شاٹ کی فریمنگ اتفاقی ہے یا چالاکی یہ تو فلم بنانے والے ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
اسی میٹنگ کے آخر میں سب سب اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ایک اسپانسر کا نام اچانک بھونڈے طریقے سے آجاتا ہے جو اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس اسپانسر کی دکانیں یا بینر محلے کے بدلنے کے بعد بیک گراوٴنڈ میں بھی استعمال ہوسکتی تھی۔
فلم کے ڈانس اور مووز بہت کمزور تھے شاید فلم کا سب سے کمزور پہلو لیکن شاندار گانے، گلوکار، لوکیشن، سیٹس اور سینماٹو گرافی نے انھیں بچالیا۔ فلم کا جشن سانگ (آئٹم سانگ) مرحبا کا رقص اور مہمان اداکارہ دونوں ہی تھوڑے کمزورنکلے۔
فلم کے ”دی اینڈ “میں فلم کے نام کی مناسبت سے ”پاکستان زندہ باد “کے ساتھ ”پاکستان وی لب یو “ کا نعرہ بھی لگتا تو اور اچھا لگتا۔
اب مثبت پہلووں کی طرف آئیں تو لکھنا بھی مشکل ہورہا ہے اور فیصلہ کرنا بھی کیونکہ لوکیشن، سیٹ ، کہانی، مرکزی خیال، مکالمے، گانے، میوزک، سینماٹو گرافی، ایڈیٹنگ، ایکٹنگ اور ڈائریکشن سب زوردار ہے۔ اگر ایک جملے میں بات کرنی ہو تو ”مہرالنسا ء وی لب یو “ سینما میں ایک بار نہیں بار بار دیکھی اور انجوائے کی جاسکتی ہے۔
فلم ” رانگ نمبر“ کی طرح تیز ، رنگین اور تیکھی ہے، لگے رہو یاسر نواز ابھی ہمیں” ذرا ہٹ کہ “ فلمیں نہیں چاہیے کیونکہ وہ اور لوگ بنارہے ہیں اور پورے سینما انڈسٹری کو داؤ پر لگارہے ہیں۔ خیر داؤ پر تو آپ نے بھی لگایا اس فلم کو کیونکہ اس فلم میں” پیغام“ سب سے واضح تھا وہ پیغام جو میرے لیے تھاسب کیلئے تھا جو اس ملک میں اس کے شہروں میں رہتے ہیں۔
جو نیوکراچی ، لالو کھیت ، کھارادر لانڈھی کورنگی سولجر بازار سے نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا اورپی ای سی ایچ ایس آئے اور اب ڈیفنس کے بعد دور بحریہ ٹاؤن اس امید پر شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں کہ وہاں سکون ہوگا لیکن اپنے محلے کو بدلنے کیلئے کوئی تیار نہیں،یہ وہی محلے تھے جن کی گندی گلیاں آج کی سڑکوں سے زیادہ صاف ہوتی تھی، خواتین اپنے بیسیاں بناتی توڑتی اور بیٹیاں اپنے کھیل یہیں جب چاہے کھیلتی وہ روشن دن اور راتیں کیا اب تو گھروں میں روشن دان اور چھجوں کا تصور بھی نہیں رہا۔
ایک گھر کا مسئلہ پورے گھر کا مسئلہ اور ایک گھر کی خوشخبری سب کیلئے جشن ہوتی تھی۔ اب بھی ایسے چندمحلے ہیں جہاں ایک کمرے کی نہیں بلکہ پورے گھر کی آوازیں دوسرے گھروں تک جاتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے محبت اور انسیت شور شرابے اور گندگی نے کھالی۔
یاسر نے فلم سے یہی سچا اور کڑوا پیغام بہت میٹھی چینی میں لپیٹ کر کامیابی سے دیا ہے۔
فلم کے سارے گانے سپر ہٹ ہیں۔ سکھویندر، نقاش عزیز اور ارمان ملک کے گانوں نے گلزار کی شاعری اور سیماب سین کی موسیقی کا لطف دوبالا کردیا کیوں کہ اتنا اچھا پلے بیک تو کئی سالوں سے بالی وڈ کی فلموں میں بھی نہیں سنا وہ تو دھڑا دھڑ پرانے گانوں کو ریمکس کر کے استعمال کر رہے ہیں۔
گانوں اور پوری فلم کی شوٹنگ بھی کمال کی ہوئی ہے۔ کہانی، موسیقی اور سینماٹو گرافی میں فلم نے ”رانگ نمبر“ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ فلم کاسیچویشنل سانگ”بدلا یہ جہاں“ اگلے الیکشن میں کافی استعمال ہوسکتا ہے۔
فلم میں بہت سارے سین ہیں جو فلم دیکھنے والوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے ۔ کامیڈی میں جانی کے ابا کے گھر کی دعوت کا سین جس میں وہ کترینا سمیت بالی وڈ کے حسیناوٴں کے اشتہاروں کی منظر کشی کرتے ہیں دوسرا جب فلم کے لیڈ پیئر کو وہ لمحہ ملتا ہے جس کے وہ منتظر ہوتے ہیں اور بجلی چلی جاتی ہے اِس سین میں بھی فیملی کے مکالمے اور بے ساختہ پن دل جیت لیتا ہے اور تیسراجب دانش تیمور اپنے گھر والوں کو خوشخبری سناتا ہے اس سین میں قوی خان سب پر بھاری نظر آئے۔
جب جانی مہرالنسا ء کو خوش کرنے کیلئے نیچے چھجے پر بیٹھا تتلیوں اور چڑیوں کے بعد جو حرکت کرتا ہے اس پر بھی سینما میں تالیاں اور سیٹیوں سے داد دی گئی۔
سنجیدہ سین کی بات ہو تو مہر النساء کی کراچی آمد پرشور اور ٹریفک سے پہلی ملاقات اور دانش کو جب بائیک پر بیٹھی ڈری سہمی مہرالنساء کے ڈر کا احساس ہوتا ہے آؤٹ اسٹینڈنگ ہیں۔
فلم میں بڑے سرپرائز ”یہ گورنمنٹ بک گئی ہے“ والی آنٹی، محبتیں والے شاہ رخ خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی اینٹری کے ساتھ پاکستانی سیاستدانوں کی اینٹری ہے جو آ پ کو ہنسا ہنسا کر خوش کردے گی۔
فلم میں کرداروں کو بڑی چالاکی سے گوندھا گیا ہے۔ دانش تیمور (علی) کا کردار سب سے مضبوط ہے، رانگ نمبر کی طرح یہاں جاوید شیخ دانش تیمور پر حاوی نظر نہیں آئے بلکہ دانش تیمور نے اس فلم سے ایکٹنگ کے میدان میں ایک لمبی اور کامیاب چھلانگ ماری ہے۔
مہر النساء کا کردار فلم کی بنیاد ہے یہ کردار لگتا ہے بنا ہی ثناء جاوید کیلئے تھا۔
ثناء ہر لباس میں بہت خوبصورت نظر آئیں لیکن انھیں اپنے ڈانس پر بڑی محنت کرنی پڑے گی۔ جانی کا ابا” بالی وڈ“ کا انسائیکلو پیڈیا ہے یہ دونوں کردار ثاقب سمیر نے ادا کیے اور لگتا ہے چالاکی سے سب سے اچھے مکالمے اپنے ابا والے کردار کیلئے بچا کر رکھے۔
علی کے دادا قوی خان کے ذومعنی جملے آپ کو برے لگنے کے بجائے مزاحیہ کیوں لگتے ہیں اس کیلئے بھی ہوشیاری سے کام لیا گیا ہے۔ نیئر اعجاز کا کردار سب سے الگ وہ اپنے رول میں خوب ”جچی “ ہیں نیئر اعجاز ، جانی کے ابا اور قوی خان کے کردار فلم کی جان ہیں۔
خالد نظامی نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ فلم کی سینماٹو گرافی کیلئے سلیم داد کو داد دینی بھی بنتی ہے۔
مہرالنساء وی لب یو میں صرف پیغام نہیں خواب بھی دکھایا گیا ہے ایک ایسا پاکستان دکھایا گیا ہے جہاں سب ایک ہیں، مہنگائی نہیں، لائٹ نہیں جاتی ایک خوشی دوسرے کا جشن ایک کا غم دوسرے کا دکھ ہے۔
سوشل کامیڈی عید کے رنگوں سے سجی میوزیکل فلم ایک بار نہیں بار بار دیکھیے سینما میں دیکھیے اوربھر پور اینٹر ٹینمنٹ سے عید کا مزہ دوبالا کریں۔۔
اور ہاں آخر میں ایک اور بات بالی وڈ کی ’’ٹ‘‘ سے ٹیوب لائٹ تو باکس آفس پر فیوز ہوگئی لیکن ’’ٹ‘‘ سے ایک بڑی فلم آنے والی ہے جس کا نام ہے ’’ٹوائلٹ ایک پریم کتھا‘‘ دونوں کی کہانی ملتی جلتی ہے۔
دونوں میں شوہر اپنی بیویوں کیلئے گھر والوں اور زمانے سے ٹکرا کر ’’سوشل چینج ‘‘ لاتے ہیں۔
اکشے کمار کی وہ فلم مہر انساء کے بہت بعد بننی شروع ہوئی۔ مہرالنساء کے کچھ مکالموں اور کامیڈی کو ’’ ولگر‘‘ لکھنے والے اُس فلم کے’’کچھ‘‘ مکالموں اور کامیڈی کو ’’ کلاسک‘‘ کہیں گے اور آپ کو بھی ’’ٹوائلٹ ایک پریم کتھا ‘‘ دیکھ کر مہرالنساء وی لب یو میں دیا گیا پیغام پھر یاد آئے گا بلکہ بار بار یاد آئے گا۔