13 جولائی ، 2017
یوں تو وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے جواب دہندگان کی دستاویزات میں کئی تضادات کی نشاندہی کی۔
تاہم سوشل میڈیا اور شہ سرخیوں میں ذکر کیلبری نامی ایک فونٹ کا رہا جو جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 2007 سے پہلے دستیاب نہیں تھا جبکہ آف شور کمپنیوں نیلسن اینڈ نیسکول لمیٹڈ سے متعلق دستاویزات 2006 کی بتائی گئیں جنہیں وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے جمع کروایا تھا۔
جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں کیلبری فونٹ کے ڈزائنر لوکس ڈی گروٹ نے کہا ہے کہ فروری 2006 سے قبل کسی قانونی دستاویز میں ان کے فونٹ کا استعمال کا امکان انتہائی کم تھا۔
جب ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو وہ دستاویز دیکھنے کا موقع ملا ہے جس کے گرد یہ سارا معاملہ گھوم رہا ہے؟
اس کے جواب میں لوکس کا کہنا تھا کہ ’جی، میں نے سرسری طور پر کہیں ٹویٹر پر دیکھا تھا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں یہ کوئی بیٹا ورژن تھا یا یہ مائکروسافٹ کا فائنل ورژن تھا؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ فائنل ورژن کا نمبر ون تھا، میں نے اسے دیکھا تھا۔ یہ وہ ورژن نہیں تھا جو ہم نے 2004 میں دیا تھا بلکہ اس کے بعد والا ورژن تھا جس میں مائیکروسافٹ نے تبدیلیاں کیں تاکہ اسے آفس اپلیکیشن میں بطور ڈیفالٹ ٹیبولر فیگر استعمال کیا جا سکے۔‘
لوکس نے بتایا کہ انہوں نے فونٹ پر مارچ 2002 میں کام کرنا شروع کیا تھا جبکہ انہوں نے یہ فونٹ مارچ 2002 میں مائیکروسافٹ کے حوالے کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ’مائیکروسافٹ کو دینے جانے سے قبل اس کا استعمال ناممکن تھا تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فروری 2006 کے بعد سے اس فونٹ کا استعمال ممکن تھا۔
’کیلیبری کو کچھ بیٹا ورژن کے ساتھ ریلیز کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر اسے ونڈوز وسٹا کی بیٹا ریلیز کے ساتھ جاری کیا گیا تھا۔ تاہم مجھے یہ یاد نہیں کہ کس تاریخ کو ریلیز کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ کسی نے اسے کسی بیٹا ورژن سے کاپی کرکے استعمال کرلیا ہو تاہم ایسا کرنے کے لیے کافی مشکل درپیش آئی ہوگی۔
لوکس نے بتایا کہ ایسا کرنے کے لیے پورے آپریٹنگ سسٹم کو ڈاؤن لوڈ اور انسٹال کرنا پڑے گا اور ایسا کرنے والے شخص کو فونٹس کے بارے میں دلچسپی اور معلومات بھی ضروری ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس دور میں کسی کا کیلبری فونٹ کا کسی قانونی دستاویز میں استعمال کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور دکھائی دیتا ہے۔
لوکس کا مزید کہنا ہے کہ فونٹ مائیکروسافٹ کو دیے جانے کے بعد کمپنی نے اسے مائیکروسافٹ ورڈ کا ڈیفالٹ فونٹ بنادیا تھا۔