28 جولائی ، 2017
ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تقریباً 60 روز کے اندر تحقیقات مکمل کی جس کے دوران شریف خاندان کے 8 افراد اور مجموعی طور پر 23 افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کی سماعت کا فیصلہ سناتے ہوئے 20 اپریل کو مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے تین مئی کو پاناما کیس کی تحقیقات کی نگرانی کے لئے تین رکنی خصوصی بنچ بھی تشکیل دیا جو انہیں ججز پر مشتمل تھا جنہوں نے پاناما کیس کے فیصلے میں مزید تحقیقات کرنے کا کہا تھا جب کہ بنچ میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تھا۔
عدالت نے جے آئی ٹی کو 13 سوالات کے جواب تلاش کرنے کا حکم دیا جس کے لئے اسے 2 ماہ کی مہلت دی گئی جب کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں کو بھی تحقیقاتی عمل کا حصہ بننے کا کہا گیا۔
جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل کرنے کی سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی 2 ماہ کی مہلت کے دوران مجموعی طور پر 59 اجلاس کئے اور وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادی سمیت 23 افراد سے تفتیش کی۔
5 مئی: جے آئی ٹی کی تشکیل:
عدالتی فیصلے کے بعد ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں 6 رکنی مشترکہ تحقیقات ٹیم 5 مئی کو تشکیل دی گئی جس میں قومی احتساب بیورو سے عرفان نعیم منگی، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹو ڈائریکٹر بلال رسول، اسٹیٹ بینک میں تعینات افسر عامر عزیز، آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر کامران خورشید کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔
6 مئی؛ جے آئی ٹی کے کام کا آغاز:
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 6 مئی کو کام شروع کیا جس کے بعد شریف فیملی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کو سب سے پہلے 28 مئی کو طلب کیا۔
28مئی؛ حسین نواز کی پیشی:
وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے سب سے زیادہ مرتبہ یعنی 6 مرتبہ پیش ہوئے، 28 مئی کو پہلی پیشی کے بعد وہ بالترتیب 30 مئی، یکم جون، 3 جون، 9 جون اور آخری مرتبہ 4 جولائی کو پیش ہوئے۔
جے آئی ٹی پر اعتراض:
حسین نواز نے پہلی پیشی سے قبل تحقیقاتی ٹیم کے 2 ارکان بلال رسول اور عامر عزیز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تاہم 30 مئی کو تحقیقات کی نگرانی کرنے والے بینچ نے یہ اعتراضات مسترد کردیئے۔
یکم اور تین جون
یکم اور تین جون کو حسین نواز دوسری اور تیسری مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تاہم تیسری پیشی کے بعد حسین نواز کی تفتیشی عمل کی ایک تصویر منظرعام پر آئی جس پر شریف خاندان کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
تصویر لیک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی سے جواب طلب کیا تاہم تحقیقاتی ٹیم نے عدالت کو تصویر لیک کرنے والے شخص کا نام تو نہیں بتایا البتہ اس شخص کی نشاندہی کے بعد اسے واپس اس کے ادارے میں بھیج دیا۔
حسن نواز کی پیشی:
حسن نواز کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز مجموعی طور پر تین مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔
15 جون: وزیراعظم کی پیشی:
وزیراعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی نے 15 جون کو طلب کیا اور وزیراعظم کی طلبی کے بعد ان سے تین گھنٹے سے زائد وقت تک سوالات کئے گئے۔
17 جون: شہباز شریف کی پیشی:
وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے ایک مرتبہ پیش ہوئے اور جنہیں 17 جون کو طلب کیا گیا اور جے آئی ٹی ارکان نے ان سے 3 گھنٹے سے زائد وقت تک پوچھ گچھ کی گئی۔
27 جون؛ وزیراعظم کے داماد کی پیشی:
وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 27 جون کو طلب کیا گیا اور ان سے مختلف سوالات پوچھے گئے۔
تین جولائی، وزیراعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کی پیشی:
وزیرخزانہ اسحاق سابق صدر پریز مشرف کے دور حکومت میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف درج ہونے والے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے جنہیں منی لانڈرنگ مقدمے میں سب سے اہم گواہ سمجھا جارہا تھا تاہم انہیں جے آئی ٹی نے ایک مرتبہ طلب کیا اور ان سے 3 جولائی کو مختلف سوالات کئے گئے۔
5 جولائی: مریم نواز کی پیشی:
سپریم کورٹ نے جن افراد کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا ان میں وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا نام شامل نہیں تھا تاہم جے آئی ٹی نے انہیں بطور گواہ 5 جولائی کو طلب کیا اور تقریباً 2 گھنٹے تک ان سے سوالات کئے۔
قطری شہزادے کا بیان:
قطر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ حمد بن جاسم کو دو مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تاہم انہوں نے بیان دینے کے لئے پاکستان آنے یا قطر میں ہی پاکستانی سفارتخانے میں بیان دینے سے معذرت کی۔ قطری شہزادے نے پیشکش کی کہ جے آئی ٹی ارکان ان کی رہائش گاہ آکر بیان لے سکتی ہے۔
جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے دیگر ارکان میں نیشنل بینک کے صدر سعید احمد، سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک، ایس ای سی پی کے سربراہ ظفر حجازی اور قومی احتساب بیورو کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب اور موجودہ سربراہ قمر زمان چوہدری ایک ایک بار پیش ہوئے۔
جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ریکارڈ کرنے والے ایف آئی اے کے دو افسران تبریز شہزاد اور جاوید علی شاہ کے علاوہ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک کے چھ افسران کو بھی ایک ایک مرتبہ طلب کیا۔