06 نومبر ، 2017
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی سب سے بڑی پہچان اُس کا باپ تھا۔ ایک عظیم باپ کی بیٹی ہونے پر اس عورت نے ہمیشہ فخر کیا لیکن باپ کا نام استعمال کر کے فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں اس عورت نے کبھی سوچا تک نہیں تھا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اکلوتی اولاد دینا واڈیا 2نومبر 2017ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ 3نومبر کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں اُن کے انتقال پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ 4نومبر کو نیویارک میں ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔
اس دوران بھارتی میڈیا میں یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ بانی پاکستان کی اکلوتی اولاد کو پاکستان میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور قائد اعظمؒ نے اپنی بیٹی کے ساتھ قطع تعلق کر رکھا تھا یہاں تک کہ 1948ء میں وہ اپنے بیمار والد کی عیادت کے لئے آنا چاہتی تھیں تو قائد اعظمؒ نے کہا کہ اُن کی بیٹی کو ویزا نہ دیا جائے۔
پاکستانی میڈیا میں بھی قائد اعظمؒ کی بیٹی کے حوالے سے کافی غلط اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی قوم کو قائد اعظمؒ کے بارے میں کافی معلومات ہیں لیکن اُن کی اہلیہ رتی جناح اور بیٹی دینا واڈیا کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔
رتی جناح کا تعلق ایک پارسی خاندان سے تھا۔ انہوں نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف اسلام قبول کر کے قائداعظمؒ کے ساتھ 19اپریل 1918ء کو شادی کر لی تھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے حقیقی چچا مولانا نذیر احمد صدیقی کے ہاتھ پر رتی جناح نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے قائد اعظمؒ کے ساتھ ممبئی میں اُن کا نکاح بھی پڑھایا۔
15اگست 1919ء کو دینا لندن میں پیدا ہوئیں۔ دینا دراصل رتی جناح کی والدہ کا نام تھا قائداعظمؒ نے اپنی بیٹی کے اس نام پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قائد اعظمؒ کی اہلیہ صرف 29سال کی عمر میں 20فروری 1929ء کو ممبئی میں انتقال کر گئیں۔ اُن کی قبر پر ان کا اسلامی نام مریم نہیں بلکہ ’’رتن بائی محمد علی جناح‘‘ لکھا گیا کیونکہ تدفین کے انتظامات ان کے والد ڈنشا پٹیٹ نے کئے تھے۔قائد اعظمؒ 1947ء تک اپنی اہلیہ کی قبر پر جمعرات کے دن فاتحہ خوانی کے لئے جایا کرتے تھے۔
اہلیہ کی وفات کے بعد قائد اعظمؒ نے اپنی بیٹی کو بہت وقت دیا۔ وہ اپنی بیٹی اور بہن کے ساتھ برطانیہ منتقل ہو گئے۔ دینا کو سسیکس میں مسز فرانسس برائون کے ایک پرائیویٹ اسکول میں داخل کرا دیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد اُنہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اصرار پر واپس وطن آنا پڑا تو انہوں نے ممبئی میں سائوتھ کورٹ کے نام سے اپنی رہائش گاہ بنا لی اور یہیں رہنے لگے۔ ممبئی میں گھر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں اُن کی اہلیہ کی قبر تھی اور بیٹی کے ننھیالی بھی تھے۔ دینا اپنی نانی کے بہت قریب تھیں اور قائد اعظمؒ اپنی بیٹی کی خوشیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔
1938ء میں قائد اعظمؒ کو پتہ چلا کہ اُن کی بیٹی دینا ایک پارسی نوجوان نیوائل سے شادی کرنا چاہتی ہیں جس کا باپ مسیحی بن چکا تھا۔ قائد اعظمؒ نے اپنی بیٹی کو اس شادی سے روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ انہوں نے اس شادی میں شرکت نہیں کی اور کئی دن تک بیمار پڑے رہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ قطع تعلق کر لیا تھا اور خط و کتابت میں انہیں مسز واڈیا لکھا کرتے تھے۔
دینا واڈیا کا پاکستان میں سب سے قریبی تعلق قائد اعظم پیپرز پروجیکٹ کے انچارج ڈاکٹر زوار حسین زیدی مرحوم سے ہوا کرتا تھا۔ مجھے سب سے پہلے ڈاکٹر زیدی صاحب نے بتایا کہ قائداعظمؒ کا اپنی بیٹی کے ساتھ شادی پر اختلاف ضرور ہوا تھا لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چلی۔ صرف پانچ سال کے بعد دینا کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔
اس علیحدگی سے کچھ سال قبل قائد اعظمؒ نے اپنی آخری وصیت تحریر کی تھی۔ 30مئی 1939ء کو تحریر کی جانے والی وصیت میں انہوں نے اپنے تمام شیئرز، سیکورٹیز اور کرنٹ اکائونٹس اپنی بہن فاطمہ جناح کے نام منتقل کئے اور واضح طور پر مونٹ پلیزنٹ روڈ مالا بار روڈ ممبئی میں اپنا گھر بھی اُنہیں منتقل کر دیا۔
اسی وصیت میں کہا کہ میں اپنے عاملین کو ہدایت کرتا ہوں کہ میری بیٹی کے لئے دو لاکھ روپے مختص کر دیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی ہر ماہ میری بیٹی کو تاحیات ادا کی جائے۔ قائد اعظمؒ کی یہ وصیت ان کے سیکرٹری سیّد شمس الحسن صاحب کی کتاب میں تفصیل سے موجود ہے۔ یہ وصیت تحریر کرنے کے چار سال بعد 1943ء میں دینا کی اپنے خاوند سے علیحدگی ہو گئی۔ وہ چاہتی تو اپنے دو بچوں سمیت والد کے پاس واپس آ سکتی تھیں لیکن انہوں نے والد کے لئے بوجھ بننا گوارا نہیں کیا۔ وہ اپنے بچوں سمیت والد کو ملا کرتی تھیں۔
خواجہ رضی حیدر نے اپنی کتاب ’’رتی جناح‘‘ میں دینا کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1946ء میں میرے والد مجھے اور میرے بچوں کو ممبئی میں ملے تو بچوں کے لئے بہت سے تحائف لے کر آئے۔ انہوں نے میرے بچوں کو بہت پیار کیا۔ نوسلی صرف چند سال کا تھا اور میرے والد کی جناح کیپ سے کھیلنے لگا تو والد نے وہ کیپ اُس کے سر پر رکھ دی اور کہا کہ یہ تم رکھ لو۔ (نوسلی واڈیا بھارت کے بہت بڑے صنعتکار ہیں ان کے پاس یہ جناح کیپ ابھی تک محفوظ ہے)۔
خواجہ رضی حیدر نے اپنی کتاب میں دینا کی طرف سے 28اپریل 1947ء کو لکھا جانے والا خط شامل کیا جس میں والد کو ’’مائی ڈارلنگ پاپا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا انہیں تحریک پاکستان میں کامیابیوں پر مبارکباد دی گئی اور پھر درخواست کی گئی کہ اُنہیں ان کی والدہ کی کچھ کتابیں بطور یادگار دے دی جائیں۔
2جون 1947ء کے خط میں دینا نے اپنے والد کو اُن کی سیاسی کامیابیوں پر مبارکباد دی جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے مقاصد سے اتفاق رکھتی تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان منتقل نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ اُن کے بچے تھے جو ممبئی میں زیر تعلیم تھے۔ وہ اپنے والد کی وفات پر پاکستان آئی تھیں۔ بعد ازاں دو مرتبہ اپنی پھوپھی کو ملنے کراچی آئیں۔ آخری مرتبہ وہ 2004ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہر یار خان کی دعوت پر پاکستان اور بھارت کا ایک روزہ کرکٹ میچ دیکھنے لاہور آئیں۔
انہوں نے یہ میچ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور وزیر مملکت طارق عظیم کے ہمراہ بیٹھ کر دیکھا۔ اُنہوں نے سرکاری مہمان بننے سے معذرت کی اور صدر پرویز مشرف کے ساتھ ملاقات سے گریز کیا حالانکہ وہ بھی میچ دیکھنے آئے تھے۔
طارق عظیم آج کل کینیڈا میں پاکستان کے ہائی کمشنر ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب بھارت یہ میچ جیتنے والا تھا تو دینا واڈیا قذافی اسٹیڈیم سے روانہ ہو گئیں۔ انہوں نے لاہور میں علامہ اقبال کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین سے اُن کی حویلی میں ملاقات کی۔ اُنہیں سگریٹ نوشی سے منع کیا۔ جب میاں صاحب نے پاکستان کے حالات پر مایوسی کا اظہار کیا تو دینا واڈیا نے انہیں مایوسی کی باتیں کرنے سے روک دیا۔
دینا واڈیا نے لاہور میں ڈاکٹر زوار حسین زیدی سے بھی ملاقات کی اور قائد اعظمؒ کے بارے میں کچھ مغربی مصنّفین کی کتابوں میں کئے گئے دعووں کی تردید کے لئے کہا۔ 27مارچ 2004ء کو انہوں نے کراچی میں اپنے والد اور پھوپھی کے مزاروں پر حاضری دی اور مہمانوں کی کتاب میں لکھا ’’دعا ہے میرے والد کا پاکستان کے بارے میں خواب پورا ہو جائے۔‘‘
2007ء میں دینا واڈیا نے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو خط لکھا اور کہا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات ممبئی میں اپنے والد کے تعمیر کردہ گھر میں گزارنا چاہتی ہیں۔ اُن کا خط نظر انداز کر دیا گیا۔ انہوں نے ممبئی ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور سائوتھ کورٹ پر ملکیت کا دعویٰ کیا۔ اُن کا موقف تھا کہ اُن کے والد کی وصیت عدالت میں رجسٹرڈ نہیں ہوئی تھی پھوپھی کا انتقال ہو گیا لہٰذا اس گھر کی وارث وہ ہیں لیکن اُن کی نہیں سنی گئی بلکہ پاکستانی حکومت نے بھی اس گھر پر ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔
قائد اعظمؒ کی بیٹی ایک اشارہ کرتیں تو پاکستانی حکومت اپنے دعوے سے دستبردار ہو جاتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 2008ء کے بعد وہ کبھی بھارت نہ گئیں اور موت تک امریکہ میں رہیں۔ اُن کی موت ایک امریکی شہری کی حیثیت سے امریکہ میں ہوئی۔ نہرو کی بیٹی اندرا نے بھی ایک غیر ہندو سے شادی کی، شادی کے بعد دونوں میاں بیوی سیاست کرتے رہے۔
قائد اعظمؒ کی بیٹی نے ایک غیرمسلم سے شادی اور شادی کی ناکامی کے بعد والد کے نام پر کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ افسوس کہ بھارتی حکومت نے ان کی آخری خواہش پوری نہ کی۔ پاکستانی قوم اپنے قائد کی بیٹی کو سلام پیش کرتی ہے۔
یہ کالم 6 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔