15 دسمبر ، 2017
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔انہوں نے بہت سی باتیں واضح کر دی ہیں اور کچھ باتوں پر کھل کر نہیں بولے مگر ان میں ٹھوس اشارے موجود ہیں کہ ملک میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے جس سے صرف تباہی اور بربادی ہی ہوگی اور جمہوریت بیچاری مزید لاچار اور لاغر ہو جائے گی۔
اس سارے ڈرامے میں دوسری قوتوں کے علاوہ کچھ سیاسی کھلاڑی بھی کھل کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ان حضرات کی سوچ انتہائی محدود ہے کیونکہ اگر جمہوریت پر مزید زخم لگتے ہیں تو یہ بھی اتنے ہی زخمی ہوں گے۔ اس میں فائدہ ان عناصر کو ہوگا جو ڈیموکریسی کو انتہائی کمزور اور مجبور بنانا چاہتے ہیں۔
آج ان لوگوں سے یہ اہم سوال ضرور بنتا ہے جنہوں نے نواز شریف کو نکالنے اور ان کی سیاست کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کیں کہ کیا اب پاکستان میں زیادہ سکون ہے اور یہ سیاسی طور پر زیادہ مستحکم ہے یا کہ 28 جولائی سے پہلے جب انہیں بطور وزیراعظم نااہل کیا گیا تھا؟
چاہے کوئی سابق وزیراعظم کا حامی ہے یا مخالف، ہر ایک کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے، سیاسی استحکام کا نام ونشان نہیں ہے اور جان بوجھ کر ایک پلان کے تحت 'جتھہ راج' کو فروغ دیا جارہا ہے جو ہمیں لے ڈوبے گا۔
ان حضرات سے یہ سوال بھی بنتا ہے کہ کیا پاکستان کی ریاست آج زیادہ مضبوط ہے یا 28جولائی سے پہلے زیادہ مستحکم تھی؟ یقیناً جواب نفی میں ہے۔
اس طرح کا انتہائی قابل مذمت ماحول پیدا کرکے کچھ سیاسی اور دوسری طاقتوں کی انا کی تسکین تو ہوسکتی ہے مگر ملک کی خدمت قطعاً نہیں اور یہ تسکین بھی صرف اس وجہ سے ہے کہ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر کو وزیراعظم ہاؤس سے باہر پھینک دیا گیا ہے۔
تاہم مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آج بھی پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں اور جتنے مرضی جتن کرلیں، انہی کی جماعت اگلے انتخابات جیتے گی اگر یہ ہوتے ہیں تو۔
گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ سے جاری مہم نے نوازشریف کا سیاسی طور پر کچھ بھی نہیں بگاڑا، جمہوریت کی جو بھی شکل ہوگی اس میں ان کا رول ہی بڑا اہم اور وزنی ہوگا۔ عوام کی واضح اکثریت نے نواز شریف کے خلاف جاری کمپین کو پسند نہیں کیا۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد ہماری سیاست میں کٹھ پتلیوں اور روبوٹوں کی بہت اکثریت ہوگئی ہے جو ہر وقت اپنے اسپانسرز کے حکم بجا لاتے ہوئے ناچتے رہتے ہیں اور سیاست کے میدان میں گندگی اور غلاظت پھیلاتے رہتے ہیں۔
پہلے یہ ڈرامہ انتخابات میں دھاندلی کے نام پر رچایا گیا۔ دھرنے پے دھرنے دیئے جاتے رہے اور اب مزید اسی طرح کے ایک تماشے کی تیاری ہو رہی ہے۔
ایاز صادق (ن) لیگ کے پہلے سرکردہ رہنما ہیں جنہوں نے یہ 'بم شیل' پھینکا ہے کہ سازشوں کی وجہ سے انہیں نہیں لگتا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسمبلیوں سے استعفے بھی آسکتے ہیں، گریٹر پلان بنتا نظر آرہا ہے، ضروری نہیں کہ سسٹم مارشل لاء سے ہی ڈی ریل ہو، کچھ ہونے والا ہے مگر معلوم نہیں یہ سب کچھ کون کروا رہا ہے اور پس پردہ کیا سیاسی وغیر سیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں۔
ساتھ ہی وزیر خارجہ خواجہ آصف کا یہ بیان آیا ہے کہ حکومت اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور ملک میں استحکام موجود ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ایاز صادق کی وارننگز میں زیادہ جان ہے کیونکہ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ جو بھی سیاسی کھچڑی پکانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف (ن) لیگ اور جمہوریت کو نقصان پہنچانا اور کمزور کرنا ہے۔
پہلے دن سے ہی پی ٹی آئی کا رول مشکوک رہا ہے کہ یہ کوئی انڈیپنڈنٹ ایجنٹ نہیں ہے بلکہ یہ جو کچھ بھی کرتی ہے کسی کے کہنے پر کرتی ہے، لیکن بدقسمتی سے اب تو پیپلزپارٹی بھی اپنی پرانی سیاست سے ڈی ریل ہو چکی ہے۔ اس نے ایک سازش کے تحت، جو کہ جمہوریت کے خلاف جاری ہے، حلقہ بندیوں کے آئینی بل کی منظوری کو سبوتاژ کیا، تاکہ اگلے انتخابات وقت پر نہ ہوسکیں اور اگر 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ہوں تو بڑی آئینی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں اور معاملہ ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ میں چلا جائے۔
پچھلے چند ہفتوں میں پیپلز پارٹی کئی بار یوٹرن لے چکی ہے، باوجود اس کے کہ حکومت اس کے مطالبات کو مانتی رہی۔ بالآخر اس نے قومی اسمبلی میں اس بل کی منظوری کی حمایت کی اور یوں لگا کہ اب یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے مگر جونہی بل سینیٹ میں آیا تو اس نے اس کی حمایت سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہ ترمیم ہوا میں لٹکی ہوئی ہے۔
اس رویے کی ایک وجہ تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اگلے انتخابات جیت کر وفاقی حکومت بنا سکے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ روڑے اٹکائے جائیں۔ لیکن اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے یا الیکشنز ہونے کے بعد اعلیٰ عدلیہ انہیں نئی مردم شماری پر نہ کرانے کی وجہ سے کالعدم قرار دیتی ہے تو اس کی سندھ میں بننے والی حکومت کیسے بچ سکے گی۔ منافقانہ بیانات جاری ہیں کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں کی مدت پورا کرنا چاہتی ہے۔
اگر عمران خان، جو عدم استحکام پیدا کرنے کے بادشاہ ہیں، کو اتنا ہی شوق ہے کہ فوری الیکشنز ہو جائیں تو وہ کیوں آج ہی خیبرپختونخوا کی اسمبلی نہیں توڑتے، جس سے یقیناً سسٹم کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔
ان کی بات ان کے اپنے وزیراعلیٰ پرویز خٹک تو ماننے کو تیار نہیں ہیں مگر وہ بار بار زور دے رہے ہیں کہ (ن) لیگ ان کے مطالبے کو مان لے۔ ان کی بات زیادہ پراثر ہو جائے گی اگر وہ کے پی کے اسمبلی تحلیل کرکے اپنے مطالبے کے حق میں سڑکوں پر نکل آئیں۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ حکومت اور جمہوریت کو رخصت کرنے کے مطالبے وہ سیاستدان اور جماعتیں کر رہی ہیں جن کا انتخابی سیاست میں کوئی مستقبل ہی نہیں ہے۔ نہ تو وہ ماضی میں کوئی سیاسی میدان میں معرکہ مار سکیں اور نہ ہی آئندہ چانس ہے کہ وہ چند سیٹیں بھی لے سکیں گی۔
یہ عناصر ہر وقت بااثر حلقوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کا بھی کوئی داؤ لگ جائے اور انہیں آئندہ کے غیر جمہوری سیٹ اَپ میں کچھ حصہ مل سکے۔
پیپلزپارٹی کی سیاست نے اس دن مزید نوز ڈائیو کیا جب آصف زرداری، علامہ طاہر القادری سے ملے اور اعلان کیا کہ وہ ان کے احتجاج میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔
یہ اُس وقت ہوا جب ماڈل ٹاؤن سانحے کے بارے میں نجفی رپورٹ کو جاری کیا گیا۔ اس پر بہت سے تبصرے ہوئے جن میں سے ایک بہت ہی بھرپور یہ بھی تھا کہ آصف زرداری پانچ سال حکومت میں رہتے ہوئے اپنی شہید بیوی کو تو انصاف دلا نہیں سکے اور اب چلے ہیں ماڈل ٹاؤن سانحے میں لوگوں کو انصاف دلانے۔ حالانکہ آصف زرداری ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ بینظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا۔
یہاں یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران مذہبی جماعتوں کے ایک مظاہرے میں شامل مدرسے کے سات بچوں کو دن دہاڑے جناح ایونیو اسلام آباد پرانے امریکن سینٹر کے نزدیک پولیس نے گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ پیپلزپارٹی شاید یہ قتل عام بھول چکی ہے اور ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی یہ اب یاد نہیں ہے۔
یقیناً ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت ہوئی اور قاتلوں کوسزا ملنی چاہیے مگر جو کچھ بھی طاہر القادری، آصف زرداری، عمران خان اور دوسرے سیاسی عناصر اس سانحہ پر کر رہے ہیں وہ صرف اور صرف سیاست ہے جس کا ٹارگٹ شریف برادران ہیں نہ کہ مقتولوں کو انصاف دلانا اصل مقصد۔
یہ تحریر 15 دسمبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔