'حدیبیہ پیپر ملز کیس میں سابق چیئرمین نیب بری الذمہ ہیں'

سابق چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری—۔فائل فوٹو/جیو نیوز

اسلام آباد:سابق چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد ہونے کے بعد قمر زمان اس کیس میں بری الذمہ ہوگئے ہیں۔

سابق چیئرمین نیب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جو موقف 2014ء میں قمر زمان چوہدری نے اختیار کیا تھا، وہی موقف سپریم کورٹ نے برقرار رکھا ہے، جس سے قمر زمان بری الذمہ ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے قبل پاناما پیپرز کیس میں ان سے سخت سوالات پوچھے گئے تھے اور ایک اہم شخصیت کے دباؤ کے بعد نیب نے شریف خاندان کے خلاف اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

حدیبیہ پیپرز ملز کیس 2000ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے دائر کیا تھا اور ابتدائی ریفرنس میں میاں نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں تھا لیکن بعد میں جنرل (ر) خالد مقبول سے پرویز مشرف نے کہہ کر نواز شریف کا نام بھی شامل کرایا۔

جلاوطنی سے واپسی پر شریف خاندان نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے حدیبیہ پیپر ملز کیس خارج کرنے کی درخواست کی جس پر لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے ریفرنس تو ختم کر دیا لیکن کیس کی دوبارہ انویسٹی گیشن کی اجازت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ ہو سکا، جس پر ایک ریفری جج مقرر کیا گیا جس نے 2014ء میں شریف خاندان کے حق میں فیصلہ سنایا۔

اس کے بعد نیب کے پراسیکوشن ونگ، پراسیکوٹر جنرل کے کے آغا (اب سندھ ہائی کورٹ کے جج ہیں) اور ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل اکبر تارڑ نے تحریری طور پر لکھ کر دیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا نیب کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس پر قمر زمان چوہدری نے اس کیس میں اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

سابق چیئرمین نیب کے قریبی ذرائع کے مطابق حال ہی میں عمران خان کی جانب سے عوامی جلسوں میں سابق چیئرمین نیب کے خلاف کی جانے والی باتیں ناقابل قبول اور بلاجواز ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس میں قمر زمان چوہدری کے موقف کو جائز قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت کی روشنی میں یہ بات قطعی غیر اخلاقی ہے، عمران خان کی جانب سے سابق چیئرمین نیب کے تقرر کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست سپریم کورٹ نے بدنیتی پر مبنی قرار دے کر مسترد کردی۔ پٹیشن میں عائد کردہ تمام الزامات کو مسترد کر دیا گیا لیکن عمران خان بدستور الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس میں سابق چیئرمین نیب کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے، عمران خان کا سابق چیئرمین نیب کے خلاف موقف فضول ثابت ہوجاتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اداروں پر تنقید اور انہیں بدنام کرنے سے ان کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس طرح کے اقدامات روکنے کے لیے بالغ النظری کی ضرورت ہے۔

ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ نیب کی پراسیکیوشن ٹیم نے قمر زمان چوہدری کو بتایا تھا کہ یہ کیس اپیل دائر کرنے کے حوالے سے درست نہیں کیونکہ نیب سپریم کورٹ سے صرف دوبارہ انویسٹی گیشن کی درخواست کر سکتا ہے اور اس کا مطلب صرف مخصوص لوگوں کو نشانہ بنانا ہوگا جس سے نیب کا نام خراب ہوگا اور اس کی ساکھ مجروح ہوگی۔

2014ء میں شریف خاندان کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے قمر زمان چوہدری نے لکھا تھا کہ پراسیکیوشن کی یہ متفقہ رائے ہے کہ تحقیقات کے عمل کے دوران کی جانے والی بے ضابطگیوں کی وجہ سے کیس مسترد کیا جانا برا نہیں۔ 

اس وقت کے نیب پراسیکوٹر جنرل اکاؤنٹیبلٹی (پی جی اے) نے 2014ء میں بتایا تھا کہ چیئرمین نے تحریری طور پر کہا ہے کہ پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ریفرنس متفقہ طور پر مسترد کیا لیکن ایک جج نے دوبارہ تحقیقات کے معاملے پر اختلاف رائے رکھا، بعد میں ریفری جج نے فیصلہ کیا کہ ریفرنس مسترد کیے جانے کے بعد کیس کی دوبارہ انویسٹی گیشن نہیں ہو سکتی۔

پی جے اے نے بعد میں لکھا کہ ریفرنس مسترد کیے جانے کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے تینوں جج متفق تھے لیکن صرف ایک جج نے دوبارہ انویسٹی گیشن کی حمایت کی، جس کی وجہ سے اپیل دائر کرنے کا موقع تیار ہوا۔

نیب کے ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل اکاؤنٹیبلٹی ایم اکبر تارڑ نے اس وقت کے پی جے اے کے روبرو یہ فائل 27 مئی 2014 کو پیش کی، انہوں نے بھی یہ رائے پیش کی کہ نیب کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر دوبارہ اپیل نہ کرے اور جمعہ (15 دسمبر)کو سپریم کورٹ میں ایسا ہی کچھ ہوا۔


یہ رپورٹ 16 دسمبر 2017 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی

مزید خبریں :