09 جنوری ، 2018
بیسن ریزرو ویلنگٹن کی طرح نیلسن کے دوسرے ون ڈے کا ٹاس بھی سرفراز احمد کے نام رہا، جنھوں نے زخمی فخر زمان کی جگہ امام الحق کو اظہر علی کے ساتھ اننگز کی شروعات کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ نیلسن کا یہ وہی گراونڈ تھا جہاں پانچ دن پہلے نیوزی لینڈ کو اظہر علی اور فخر زمان کی سنچریوں کے ساتھ نا صرف پاکستان نے 341/9 رنز بنائے تھے بلکہ نا تجربے کار ٹیم کے خلاف 120 رنز سے فتح بھی سمیٹی تھی۔
البتہ پہلے ون ڈے کی طرح دوسرے مقابلے میں بھی، پہلے دس اوور ہی میں پاکستان ٹیم دونوں اوپنرز کے آؤٹ ہونے کے بعد قدرے دباؤ کا شکار ہوچکی تھی۔
دوسری بڑی وجہ ابتدائی دس اوورز میں پاکستانی بیٹس مینوں کا محتاط رویہ بھی تھا، جنھوں نے 41ایسی گیندیں کھیلیں جہاں کوئی رن ہی نہیں بنا اور یہ سلسلہ اننگز کے اختتام تک جاری رہا۔
قومی ٹیم نے مقررہ اوورز میں 246/9 کا اسکور کیا اور 50 اوورز میں 167 ایسی گیندیں کھیلیں جن پر کوئی رن ہی نہیں لیا گیا۔
چوتھی وکٹ پر محمد حفیظ اور شعیب ملک کے درمیان 69 رنز بنے جس کے لئے دونوں بیٹس مینوں نے 15 اوورز کھیلے۔
دونوں بلے باز اس وقت آؤٹ ہوئے جب ٹیم ان سے بڑی اننگز کی توقع کر رہی تھی۔
سرفراز احمد کی بیٹنگ میں کپتانی کا دباؤ ایک بار پھر نظر آیا، وہ محض چھ گیندوں کے مہمان ثابت ہوئے۔
آٹھویں وکٹ پر شاداب خان اور حسن علی نے میزبان ٹیم کے خلاف 70رنز کی شراکت قائم کرکے بیٹس مینوں کو شرمندہ کر دیا، دونوں نے بالترتیب 52 اور51 رنز بنائے۔
نیوزی لینڈ کی اننگز کی تیسری گیند پر اگرچہ خطرناک کولن منرو محمد عامر کی گیند پر فہیم اشرف کو کیچ دے گئے، البتہ اس ابتدائی کامیابی کے باوجود ٹیم پاکستان میچ پر گرفت مضبوط نہ کر سکی۔
بارش کے سبب میزبان ٹیم کو 25اوورز میں 151رنز کا ہدف ملا جو اس نے سات گیندوں پہلے ہی حاصل کر لیا۔
بارش کے بعد محمد عامر کے اوور نہیں بچے تھے اور سارا دارومدار حسن اور شاداب کے گندھوں پر تھا البتہ دونوں بیٹنگ کے بعد بولنگ میں ٹیم کے کام نہ آسکے۔
مارٹن گپٹل کے 86 اور روز ٹیلر کے 45 ناقابل شکست رنز اپنی جگہ البتہ سوال یہ ہے کہ دورے میں مضبوط بولنگ اٹیک والی ٹیم پاکستان کے بولرز کی خامیاں کہیں یا پھر نیوزی لینڈ کی کنڈیشنر میں بولنگ کرنے کی کمی، ٹیم پاکستان کے لئے دونوں ہی میچوں میں شکست کا سبب بنی ہے۔
سرفراز احمد کی قیادت میں مسلسل 9 ون ڈے جیت کر کیوی کے دیس پہنچنے والی ٹیم کو اب تیسرے میچ میں جیت کے دباؤ کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔
ورنہ ڈونیڈن میں شکست کا سیدھا مطلب ون ڈے سیریز میں شکست ہوگا۔