بلاگ
Time 17 جنوری ، 2018

عقل سے دستبرداری

صدر ٹرمپ کی دھمکی آمیز ٹوئیٹ پر اُنہیں پاگل یا خبطی قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالنا اور بات، لیکن کیا پاک-امریکا تعلقات میں گہری دراڑیں پڑنے پر اس ردعمل کو دانشمندانہ قرار دیا جاسکتا ہے؟

ہم عقل و شعور کے دریچے عین اُس وقت بند کرلیتے ہیں جب اُنہیں کھلا رکھنے کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ بے سروپا باتیں کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، لیکن اُن کے اس موقف، کہ پاکستان افغان مسئلے کا حل نہیں، حصہ ہے، پر امریکا اور باقی دنیا میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ کیا ہمیں اس پر پریشان ہونا چاہیے یا نہیں؟

کسی بڑی طاقت کے جارحانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے اپنے بچاؤ کی کوشش کرنا فطری بات ہے، لیکن کیا اس پر غور نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی نوبت کیوں آئی؟ اور اگر عقل سے کام نہ لیا گیا تو اس کے نتیجے میں ہولناک تباہی آسکتی ہے؟ ہم یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہم خود کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے تو کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا لیکن دنیا اس کا ادراک نہیں کرتی۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اگر دنیا ہماری پروڈکٹ نہیں خرید رہی تو کیا ہماری مارکیٹنگ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یا پھر پروڈکٹ ہی ناقص ہے؟

امریکا ہمارے ساتھ پاگل پن کا رویہ کیوں دکھا رہا ہے، اس کی ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلیل ہے: چونکہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے، اس لیے اُسے الزام لگانے کے لیے کوئی قربانی کا بکرا چاہیے۔ سازش کے رنگ میں رنگی اس دلیل کے پچاسیوں شیڈز ہیں، لیکن حرفِ آخر یہ ہے کہ چونکہ امریکا اپنے سیکورٹی مفاد کے لیے ہماری سیکیورٹی کو داؤ پر لگارہا ہے، ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب تعلقات میں جتنا بگاڑ آتا ہے آنے دیں۔ امریکا چاہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک اور طالبان کو اپنی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے فراہم نہ کریں۔ اسے یقین ہے کہ جب تک ہم اُن کی سرپرستی سے دستبردار نہیں ہوں گے، افغانستان میں موجود امریکی فورسز جنگ نہیں جیت سکتیں۔

دنیا کو سنانے کے لیے ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ ہمارا حقانیوں یا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔ نجی طور پر ہمارا موقف یہ ہے کہ حقانیوں یا طالبان کے ساتھ تعلق جنگ زدہ افغانستان میں ہمارے مفاد کا تحفظ کرسکتا ہے کیونکہ وہاں دیگر تمام عناصر کا جھکاؤ انڈیا کی طرف ہے۔ ایک اور ضمنی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم حقانیوں یا طالبان کو اپنے ہاں سے نکالنے کا فیصلہ کر بھی لیں تو بھی شاید ہم اُن سے اپنی بات منوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ چنانچہ ایسی کوشش ہمارے گلے پڑ سکتی ہے اور مغربی سرحد پر ہمارا واحد فریق ہمارے ساتھ دشمنی پر اتر آئے گا، اور وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

گویا ہمارا سنجیدہ تجزیہ یہ ہے کہ اگر ہم امریکا اور افغان فورسز کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال بھی دیں تو بھی ہم طالبان کو اتنا کمزور نہیں کرسکتے کہ جنگ زدہ افغانستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست میں ڈھالا جا سکے۔ تو پھر اس کی کوشش کرکے طالبان کو اپنا دشمن بنانے میں کوئی منطق نہیں۔ دوسری طرف امریکا کو یقین ہے کہ ہم اُن کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ ہماری دلیل پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اُس کا خیال ہے کہ طالبان کی افغانستان پر حکومت ہمارے مفاد میں ہے، ممکن ہے کہ سچائی ان دونوں کے درمیان کہیں ہو۔

ہمارا طالبان کے ساتھ رویہ ہمارے وسیع تر موقف، ہماری قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معروضات پر سوالات اٹھاتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے امریکا کو بھول جائیں۔ ہم طالبان کو مغربی سرحد پر اپنا بہترین اثاثہ کیوں گردانتے ہیں حالانکہ جب وہ افغانستان پر حکومت کرتے تھے تو ہم اُن پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے؟ کیا افغان طالبان نے تحریکِ طالبان پاکستان کی حمایت نہیں کی؟ کیا پاکستانی طالبان نے اُن سے تقویت پاتے ہوئے فاٹا میں اسلامی ریاست قائم نہیں کی اور ریاست پاکستان کے خلاف جنگ شروع کردی؟ یا جب تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو پاکستانی شہریوں کا خون بہا رہے تھے تو کیا یہ دلیل نہیں دی گئی تھی کہ ہم اُن کے خلاف جنگ نہیں کرسکتے کیونکہ ناکام جنگ پورے ملک میں آگ بھڑکا دے گی؟

ہمیں پاکستانی طالبان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے  اے پی ایس کے سانحے کا انتظار کیوں کرنا پڑا؟ کیا اُن کے انتہا پسندانہ نظریات ہمیں باور کرانے کے لیے کافی نہ تھے کہ اُن کے اور پاکستانی ریاست کے مفادات ایک جیسے ہو ہی نہیں سکتے؟ یا پھر ہم ابھی قبائلی سوچ سے آگے نہیں بڑھ سکے اور ’’اچھے دہشت گردوں‘‘ اور ’’خراب دہشت گردوں‘‘ کی پالیسی کی جڑیں اسی دور میں گڑی ہیں۔ کیا ہم دہشت گردی کی اصل وجوہ کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہیں اور کسی بڑے سانحے کے انتقام کے طور پر ہی کچھ کارروائی کرتے ہیں؟

ہمارے رویے اس انداز میں کیوں ڈھلے ہیں کہ کوئی واقعہ ہمیں مشتعل کردیتا ہے اور ہم ہنگامی اقدامات پر تل جاتے ہیں، لیکن مسائل کی اصل وجوہ کا تدارک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؟ اے پی ایس کے بعد ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ ہم نے انتہا پسندی کو ختم کرنے کا عزم کیا۔ ہم نے دہشت گردوں کو پھانسی دینےکے لیے فوجی عدالتیں قائم کیں۔ لیکن ہم لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز، جو نفرت کا پرچار کرنے میں آزاد ہیں، کو سزا دینے میں ناکام رہے۔

ہم نے عالمی دباؤ کی وجہ سے حافظ سعید کو نظر بند کردیا لیکن کیا دنیا نہیں جانتی کہ ریاست اُنہیں ایک بوجھ کی بجائے ایک اثاثہ گردانتی ہے؟ جیشِ محمد کے مسعود اظہر کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اُنہیں پٹھان کوٹ بیس پر حملے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا لیکن سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فضل اللہ کے سُسر صوفی محمد کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ ریاست اُن کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے اور سزا دینے میں کیوں ناکام رہی؟ کیا ہم دنیا کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں یا اپنے ساتھ؟ کیا مسعود اظہر، حافظ سعید، عبدالعزیز اور صوفی محمد کو اثاثہ سمجھنا پاکستان کی سیکیورٹی کو تقویت دیتا ہے؟

کیا کوئی ایسا وقت آئے گا جب غداری کا الزام سہے بغیر سیکیورٹی پالیسی کا ناقدانہ جائزہ لینا ممکن ہوگا؟ جو اندازِ فکر طالبان کو افغانستان میں اثاثہ سمجھتا ہے، چاہے اس کے لیے امریکا سے تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، یہ وہی ہے جو مسعود اظہر اور حافظ سعید کو بھارت کے خلاف غیر روایتی جنگ میں اثاثہ سمجھتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو عبدالعزیز اور صوفی محمد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے گھبراتی ہے اور جو مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کو سیاست میں لاکر جمہوریت کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور ان تمام کو ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں مثبت تنقید کرنے والوں پر تو چڑھائی کردی جاتی ہے لیکن ہر قسم کی انتہا پسندی پھیلانے والوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لایا جاتا ہے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والے خادم رضوی کو انعام سے نوازا جاتا ہے، ہم کس طرف جارہے ہیں؟ اگر ہمارے ملک کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں احمد نورانی اور طہٰ صدیقی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے خاموش کرا دیں لیکن ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک کو سہارا دینا ضروری سمجھیں تو تشدد پر تعجب کیسا؟

ایک گھٹن زدہ ریاست میں اذیت پسند معاشرہ ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔ اے پی ایس کے بعد ہمارا خون کھول اُٹھا۔ ہم بہت سے افراد کو پھانسی پر لٹکا کر اُن بچوں کے خون کا حساب برابر کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنائے بغیر ہم نے پھانسیاں دینا شروع کردیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفاک سزاؤں سے ہی انسانی رویہ بہتر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مقبول بیانیہ یہ ہے کہ چند ایک کو پھانسی پر چڑھا کر نشان عبرت بنادیں، باقی راہ راست پر آ جائیں گے۔

معصوم بچی زینب کے قتل پر بھی ہمارا ردعمل یہی ہے۔ ہم اس کیس میں انتقام اور پھانسی چاہتے ہیں لیکن ہم اُن لاکھوں بچوں کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں جنہیں اس ہوس زدہ معاشرے میں درندگی کا سامنا ہے ۔ کیا وزیراعلیٰ پنجاب، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فوجی کمان کی طرف سے لیے گئے اس واقعے کے نوٹس کے بعد کریمنل جسٹس سسٹم اور قانون کی حکمرانی کو تقویت دینے کے لیے کچھ کیا جائے گا؟

بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف ہمارے معاشرے تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ وہاں کے اربابِ اختیار واقعات میں ذاتی طور پر دخل دینے کی بجائے نظام کی درستی کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ سخت سزائیں ڈیٹرنس (قُوت مزاحمت کا توازن) ہوتی ہیں۔ نہیں، بلکہ جرم کے بعد سزا ملنے کا یقین ڈیٹرنس ہوتا ہے۔

عقل سے دستبردار ہونا، خوش فہمی کا شکار رہنا، دنیا کو للکارتے پھرنا، اپنے مسائل کے لیے سازش کی تھیوریاں ٹکسال کرنا، انتہا پسندوں کو سرپر بٹھا کر امن کی امید کرنا کس چیز کی علامت ہیں؟

یہ تحریر 17 جنوری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔