19 فروری ، 2018
اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اور دیگر فورمز پر ججز کے طرز عمل کو زیر بحث لایا جائے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ ہر آئینی ادارہ اپنی حدود میں کام کرے، منتخب نمائندوں کو چور کہا جاتا ہے، حکومتی فیصلوں کو رد کیا جاتاہے جو اچھی روایت نہیں، ہمیں پارلیمنٹ کے وقار کو محفوظ کرنا ہے۔
وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کے اراکین کو ہدایت کی کہ وہ دونوں ایوانوں میں ججز کے طرز عمل پر تحاریک التواء اور تحریک استحقاق لائیں،قراردادیں پیش کریں۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اعلیٰ عدلیہ اور ججز سے متعلق پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ججز کے طرزعمل کو پارلیمنٹ اور دیگر فورمز میں زیربحث لایا جائے۔
پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے وزیراعظم کے اس اعلان کی بھرپور حمایت کی جبکہ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے صبر و تحمل کی پالیسی کا غلط فائدہ اٹھایا جارہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیانیے کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔
اجلاس میں ن لیگ کے 100 سے زائد ارکان نے شرکت کی جن میں وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال شامل ہیں البتہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اجلاس میں شریک نہیں تھے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ انہوں نے کابینہ اور پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ عدلیہ اور فوج کے خلاف بیان بازی نہ کی جائے تاہم اب اچانک ان کا مؤقف تبدیل ہوگیا ہے۔
سینیئر صحافی حامد میر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت پید اکرنا چاہ رہی ہے۔
حامد میر کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جیو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے پارلیمانی پارٹی اور کابینہ کے اجلاسوں میں کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی نہ کی جائے، تاہم ان کے اس مؤقف کو پارٹی میں بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
حامد میر نے مزید کہا کہ اب وزیراعظم پر یہ دباؤ ڈالا گیا ہے کہ کم از کم کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ججز کے طرز عمل پر بحث کریں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا یہ خیال ہے کہ سوائے دو تین لوگوں کے علاوہ کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان عدلیہ اور ججز کے طرز عمل پر تنقید نہیں کررہی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں نااہل کیے جانے کے بعد سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور حکمراں جماعت کے دیگر رہنما بشمول مریم نواز بارہا یہ بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں کہ عدلیہ نے انہیں نااہل قرار دے کر عوام کے ووٹوں کی تذلیل کی۔
این اے 154 لودھران کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کی کامیابی اور پی ٹی آئی کے امیدوار علی ترین کی شکست کے بعد بھی نواز شریف کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ لودھران کے عوام نے نااہلی کا عدالتی فیصلہ مسترد کردیا۔
الیکشن میں کامیابی کے بعد لودھراں میں منعقدہ جلسے سے خطاب میں بھی نواز شریف نے کہا کہ ’’مجھ پر ایک روپے کی رشوت کا الزام نہیں ہے لیکن کچھ نہ ملا تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کردیا، ایسا فیصلہ دنیا میں کہیں نہیں سنا‘‘۔
نواز شریف نااہلی کے فیصلے کے بعد سے ہر جلسے جلوسوں اور دیگر فورمز پر یہی بیانیہ اپناتے ہیں کہ انہیں بلاجواز نکالا گیا جبکہ ریلیوں میں مریم نواز بارہا عوام سے یہ نعرہ لگواتی ہیں کہ عوامی عدالت ناہلی کے فیصلے کو نہیں مانتی۔
اس حوالے سے نواز شریف کے سیاسی حریف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ عوام سے ووٹ لے کر آنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ شخص قانون سے بالاتر ہوگیا ہے۔
البتہ گزشتہ روز عمران خان نے بھی اپنے بیان میں پاناما کیس کے فیصلے کو کمزور قرار دیا اور کہا کہ کیس پاناما کا تھا مگر سابق وزیراعظم نواز شریف کو اقامے پر سزا دی گئی۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف عدلیہ کے خلاف تقاریر کر رہے ہیں، عوام کو اُکسا رہے ہیں مگر عدلیہ نے کچھ نہیں کیا، اس لیے وہ شیر ہو گئے ہیں۔