19 فروری ، 2018
وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کے تصادم سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ ایوان اس معاملے پر بحث کرلے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے حلف لیتے ہوئے آئین کا دفاع کرنے کا عہد کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس ایوان میں بیٹھے لوگ20 کروڑ لوگوں کے منتخب نمائندے ہیں، لیکن آج عدالتوں میں منتخب نمائندوں کو کبھی چور، ڈاکو اور مافیا کہا جاتا ہے، عدالتوں میں دھمکی دی جاتی ہے کہ جو قانون آپ نے پاس کیا ہے اسےختم کردیں گے۔
وزیراعظم نے ایوان میں موجود ارکان سے استفسار کیا کہ کہا اس ایوان کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں، کیا ہمیں پہلے قانون سازی کرنے سے قبل منظوری لینی ہوگی؟
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کی حدود کا تعین موجود ہے، اداروں کو اپنی حدود میں رہنا ہوگا ورنہ ملک کا نقصان ہوگا، جب بھی اداروں میں کشمکش ہوتی ہے ملک کا نقصان ہوتا ہے، اس کیفیت سے بچنے کے لیے ایوان میں بحث ہونی چاہیے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ یہ کسی جماعت کا معاملہ نہیں اس پر ایوان میں بحث ہونی چاہیے، حکومتی نمائندوں کوعدالتوں میں بےعزت کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عدالتوں میں حکومتی پالیسیوں کی نفی کی جاتی ہے، لوگوں کو نکالا جاتا ہے، یہ باتیں کب تک چلیں گی، اس میں ملک کا نقصان ہوگا، آج حکومتی عہدیدار کے لیے سب سے آسان راستہ ہے کہ کوئی فیصلہ اور کام نہ کرے، حکومتی عہدیدار کام نہیں کرے گا تو کوئی نہیں پوچھے گا، کام کرے گا توبےعزتی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آج ہماری حکومت ہے کل کسی اورکی ہوگی، پوچھ گچھ ہونی چاہیے، قانون موجود ہے، ان چیزوں پر ایوان میں بات ہونی چاہیے، ان چیزوں کا تعین کرنا چاہیے۔
وزیراعظم نے استفسار کیا کہ کیا حکومت کو تقرریوں اور فیصلے کرنے کا حق ہے؟ اگر کوئی غلط فیصلہ ہوا اور اس کے منفی اثرات ہوئے تو کیا وہ ذاتی ذمہ داری ہوجاتی ہے؟ اگر ایوان ان معاملات پربات نہیں کرے گا تو یہ کیسے حل ہوں گے؟
وزیراعظم نے کہا کہ ’’میں کسی ادارے یا عدلیہ پرتنقید نہیں کررہا صرف حقائق بتارہا ہوں، اپوزیشن لیڈرسے گذارش ہے کہ اس کو پارٹی کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
خیال رہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں آنے سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی سربراہی کی تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ججز کے طرز عمل کو پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر زیر بحث لایا جائے۔
قومی اسمبلی سے خطاب میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ ایوان کو قانون سازی کا حق ہے، پارلیمنٹ کا کردار پارلیمنٹ کوہی ادا کرنا چاہیے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ بحث بہت پہلے ہونی چاہیئے تھی، ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر اقرار کرنا چاہیئے، جب ہم عدلیہ کو ڈکٹیشن دیتے ہیں تو ٹھیک ہوتا ہے؟
خورشید شاہ نے کہا کہ جب پاناما کا معاملہ آیا تو ہم نے کہا تھا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کودیکھنا چاہیے، ہم نےخود پارلیمنٹ کاتقدس پامال کیا کسی اورنے نہیں کیا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے خود پارلیمنٹ کو کمزور کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو بالادست دیکھنا چاہتے ہیں، تمام اداروں کواپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے، اگر ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو ملک کمزور ہوگا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اگر قانون سازی ایک فرد اور مفادات کے لیے ہو تو تباہ کن ہوتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے قانون سازی کرے اور کسی کو حق نہیں کہ وہ اسے رد کردے البتہ اس کی تشریح کی جاسکتی ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ قانون سازی حکومت یا اپوزیشن کی نہیں ہوتی بلکہ ملک کے لیے ہوتی ہے، جب تک یہ جذبہ نہیں ہوگا نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کے لیے ہم سب متحد ہیں، اگر حکومت ملک و قوم کی بہتری کے لیے کوئی قانون لائے گی تو اپوزیشن اس پر ضرور بحث کرے گی اور حمایت کرے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں ارکان پارلیمنٹ نہیں بلکہ پاکستان کی عوام بیٹھیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم کسی محمکے کا انتظام نہیں چلا سکتے، آج ہم کوئی اقدام کریں صبح ہمیں حکم امتناع دکھا دیا جاتا ہے، ہمارے عدالتی نظام کے اندر بھی ابتری ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج ہم میں سے ہر کوئی دوسرے پہ نگاہ لگا ئے بیٹھا ہے، ہر ادارہ اس چکر میں ہے کہ اُس کا ٹِکر اور خبر کیا بنے گی۔
ہم میں سے ہر ایک دوسرے پر نگاہ لگا کر بیٹھا ہے، ہرایک نگاہ لگا کر بیٹھا ہے کہ دوسرا کیا غلط کررہا ہے، اپنےکام کو کوئی نہیں دیکھتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مختلف نظر یات کے نمائندے ہیں، آئیے ایسے ایجنڈے پر متتفق ہوں جس سے ووٹ کو ایک کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھا جائے۔
’آئین اور جمہوریت کا عدم تسلسل ملکی حالات کی خرابی کی وجہ ہے‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی کےخلاف اقدامت کو عالمی سطح پر سراہاگیا، 2000علمائے کرام نے متفقہ طور پر خود کش حملوں کو حرام قرار دیا، آئندہ نسلوں کو پُرامن ، محفوظ اور خوشحال پاکستان دینا چاہتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ قومی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا اور یورپ کو خوش کرنے کیلئے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین اور جمہوریت کا عدم تسلسل ملکی حالات کی خرابی کی وجہ ہے، آئین اداروں کی حدود کا تعین کرتاہے، کوئی ایک ادارہ نہیں ہے جو کہے کہ وہ مقدس گائے ہے، ادارے خود کو درست کریں اور اپنا اپنا کام کریں تو ملک تیزی سےترقی کرسکتا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ملک کی ترقی اور چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سبوتاژ کرنے کیلئے دشمن ایجنسیاں دن رات اوور ٹائم لگا کرکام کررہی ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک کے تمام ریاستی ادارے ان رویوں پر نظر ثانی کریں جس سے آپس کی محاذ آرائی کو فروغ مل رہا ہے، جمہوریت کے اندر تضاد اور اختلاف رائے جمہوریت کا زیور ہے۔