25 مئی ، 2018
اسلام آباد: فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی آئینی ترمیمی بل منظور کر لیا۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے انضمام سے متعلق آئینی بل پیش کیا۔
بل کی شق وار منظوری لی گئی جس کے بعد آئینی ترمیمی بل کی حمایت میں 71 اور مخالفت میں 5 ووٹ آئے۔
حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
سینیٹ سے فاٹا انضمام کے بل کی منظوری کے بعد اجلاس نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
جے یو آئی کے سینیٹر مولانا عبدالغفورحیدری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نقطہ نظر ہے کہ فاٹا کا الگ اسٹیٹس تھا کیا اس ایوان میں دلیل کی آزادی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے سوال اٹھایا کہ کیا فاٹا کا اسٹیٹس تبدیل کرتے وقت عوام کی رائے لینا گوارا نہیں، فاٹا کے عوام جو نہیں چاہتے تھے وہ ان پر مسلط کیا گیا۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں فاٹا اصلاحات پر کام شروع ہوا، فاٹا کے لوگ پوری شہریت اور صرف اپنا بنیادی حق مانگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے فاٹا سے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے خاتمے کی بات کی۔
شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اب فاٹا میں تعزیرات پاکستان نافذ ہوگی اور کوئی بے تاج بادشاہ ہو کر لوگوں کے فیصلے نہیں کرے گا۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی نے گزشتہ روز فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم منظور کی تھی جس کے لیے ایوان میں موجود 229 اراکین نے بل کی حمایت میں اور صرف ایک رکن نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
فاٹا اصلاحات بل:
بل کے متن کے مطابق بل کی منظوری کے بعد فاٹا اور پاٹا کو آئین سے حذف کر دیا گیا، فاٹا کی قومی اسمبلی سے 12 نشستیں ختم ہوجائیں گی جس کے بعد قومی اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد 342 سے کم ہو کر 336 ہو جائے گی۔
بل کے متن کے مطابق خیبرپختوانخوا کی نشستوں کی تعداد 48 سے بڑھ کر 55 ہو جائے گی جب کہ بلوچستان کی نشستوں کی تعداد 20، سندھ کی 75 اور اسلام آباد کی 3 ہوگی، پنجاب کی نشستوں کی تعداد 174 سے کم ہو کر 173 ہو جائے گی۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشستیں 145 ہو جائیں گے جس میں فاٹا کے علاقوں سے 16، خواتین کی 4 اور اقلیتوں کی ایک نشست ہو گی۔
بل کے متن کے مطابق 2018 کے انتخابات میں فاٹا سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبران پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا جب کہ فاٹا سے موجودہ ممبران سینیٹ پر بھی اس کا فوری اطلاق نہیں ہوگا اور وہ اپنی مدت کی تکمیل تک سینیٹ کے ممبر رہیں گے۔
فاٹا اصلاحات بل کے مطابق فاٹا سے انگریز دور کا رائج نظام فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔
بل کے مطابق سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا جب کہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔
فاٹا کیا ہے ؟
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو فاٹا کہا جاتا ہے جو 7 ایجنسیز اور 6 فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل ہے۔
فاٹا کے علاقوں میں مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، خیبرایجنسی، کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ ایف آر پشاور، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک کے علاقے شامل ہیں۔
فی الحال فاٹا کسی صوبے کا حصہ نہیں بلکہ یہ علاقے اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں، فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لیے آئین میں 31ویں ترمیم کی گئی ہے جس پر عمل جاری ہے۔
پاٹا اور فاٹا میں فرق
اکثر لوگ فاٹا اور پاٹا میں فرق نہیں کرتے اور یہ دونوں مختلف جگہوں کو کہا جاتا ہے۔
پاٹا وہ چند علاقے ہیں جو صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے زیر انتظام تھے، 1970ء کے لگ بھگ ان علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کر کے انہیں صوبوں میں ضم کیا گیا اور 1995 میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پر اضلاع کی حیثیت دی گئی۔
خیبرپختونخوا کا پاٹا ان علاقوں پر مشتمل تھا، سوات، چترال، دیر بالا، دیر، بونیر، شانگلہ، کوہستان، تورغر اور مالاکنڈ تاہم اب یہ اضلاع کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بلوچستان کے پاٹا میں شامل علاقوں میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، موسیٰ خیل، شیرانی، لورالائی، بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور دالبندین تھے جنہیں اب ضلع کی حیثیت حاصل ہے۔