28 جون ، 2018
وطن عزیز میں 25 جولائی کےعام انتخابات کےلئے سیاسی جماعتیں لنگوٹے کس کےانتخابی میدان میں اترپڑیں ہیں۔
جلسوں کا ہنگامہ خیز مہینہ شروع ہوچکا ہے، انتخابی عمل کے لئے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے باہر اور پہلی مرتبہ اندر کا کنٹرول سنبھالنے کااختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
آرمی چیف، چیف جسٹس، نگران وزیراعظم سب ہی بر وقت اور شفاف انتخابات کی بارہا یقین دہانی کراچکےہیں۔ جولائی کے اواخر میں مون سون کی سیلابی انگڑائی کے سوا انتخابی عمل میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔لیکن وہ کہتےہیں ناں
“There is many a slip between the cup and the lip.”
بہت کچھ ہوچکا ہے اور پرچی کے بیلٹ باکس تک پہنچنے سے پہلے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، سارے معاملے کو اتنا پیچیدہ اور مشکل دکھایا جارہا ہے کہ ان ہوشربا ایکشنز کی ایک فاطرالعقل کو بھی اچھی خاصی سمجھ آرہی ہے۔
ذہنوں میں جاگزیں برسوں کی محرومیاں سوشل میڈیا کےمنہ سے رس رہی ہیں۔ سیاسی شطرنج کے کھیل کی بساط اور پھرتیلی چالیں نتائج کا پتہ دے رہی ہیں، کہاجارہا ہےکہ ن لیگ کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کسی حد تک طے پاگئے ہیں؟
شہباز شریف پارٹی اور انتخابی مہم کو لیڈ کریں گے اور نوازشریف بوجوہ انتخابی مہم چلانےابھی پاکستان نہیں آئیں گےشاید اسی لئےمسٹرخان کاغیرمحسوس انداز میں میڈیاٹرائل بھی پہلی مرتبہ جاری ہےتاہم فیصلہ توبیلٹ باکس سےنکلنے والی پرچیاں ہی کریں گی ؟طاقتورحلقے بضد ہیں کہ وفاق سمیت صوبوں میں سیاسسی پارٹیاں منقسم مینڈیٹ لےکرآئیں اورہنگ پارلےمنٹ کےساتھ نئےچہروں کو مسند اقتدار ملےگی؟
موجودہ جاری سیاسی کھیل تماشے اور اس کے کرداروں پر بات کرنے سے پہلے گزشتہ کئی کالمز کا ریفرنس دینا ضروری سمجھتا ہوں جن میں راقم نے انتخابی عمل سے پہلے ہی ٹکٹ تقسیم کے معاملے پر کھلاڑیوں، متوالوں اور جیالوں کے باہم دست و گریباں ہونے اور پارٹیوں میں پھوٹ پڑنے کی نشاندہی کی تھی۔
بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، آج ایک طرف خان صاحب اپنے مشیروں کے فیصلوں پر سر پکڑ کر بیٹھے ہیں تو شریفوں کو اپنے دیرینہ ساتھیوں کی بغاوت کاسامنا ہے جبکہ بھٹو زرداری پارٹی تو امیدواروں کی تلاش میں ابھی سے ادھ موہی ہوچکی ہے۔
گزشتہ کئی انتخابات کی طرح یہ کوئی عام انتخابات نہیں بلکہ تاریخی اور حقیقی تبدیلی کی طرف بہت بڑا قدم ثابت ہوں گے، میں کسی جماعت کے تبدیلی کے نعرے کی بات نہیں کررہا ہےبلکہ قومی جماعتوں کی قیادت کے طرز سیاست اور فیصلوں کی بات کررہا ہوں۔
مجھے یاد ہےکہ مشرف کی آمریت کے دوران اسلام آباد جی سکس سیکٹر کے ایک گھر میں واقع پی ٹی آئی کے صدر دفتر میں بطور بیٹ رپورٹر تقریباً ہر روز پارٹی ایکٹیوٹی کور کرنے جاتا جہاں خان صاحب اکیلے ہوا خوری کررہے ہوتے تھے، دوسرا کوئی بڑا نام نہ تھا۔
خان صاحب سے ون آن ون انٹرویو کرتا تو خان صاحب کہتے آج کس موضوع پر بات کریں گے، تو میرا جواب ہوتا تھا کہ آپ کرکٹ کے بعد سیاست کے بھی اسٹار ہیں سیاسی صورت حال پرکچھ بھی بولیں گے وہ خبر بن جائےگی اور ایسا کئی سال تک ہوتا رہا۔
خان صاحب اکثر مجھ سے دل کی بات کرتے ہوئے کہتے کہ ایک دن تحریک انصاف مختلف اور نظریاتی جماعت کی حثیت سے ملک کی بڑی جماعت بنے گی۔
وقت گزرتا گیا، دور آمریت کے کنٹرولڈ انتخابات ہوئے، پھر 2008 کے عام انتخابات پر پارٹی قومی افق پرجگہ نہ بناسکی۔
دلچسپ صورت حال پیپلزپارٹی کےطرزحکومت اورن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن نے پیدا کی اور 2013 کے انتخابات میں دو جماعتی انتخابی معرکے کے درمیان نئے نظریات اور آئیڈیل منشور کے ساتھ تیسرا فریق میدان میں آگیا۔
پی ٹی آئی کو سنجیدہ حلقوں بالخصوص نوجوان طبقے نے خوب پذیرائی بخشی، کئی ترو تازہ چہرے منتخب ہوئے تاہم طاقتوروں کے انتخابی نتائج نے پی ٹی آئی کو اپوزیشن کی تیسری جماعت بنادیا۔
ردعمل میں دھرنوں، جلاؤ گھیراؤ، دھونس دھمکیوں اور حملوں کی سیاست کا باقاعدہ آغاز ہوا، نوجوان خواتین جو سیاسی جماعت کا ہراول دستہ اور تبدیلی کا نقطہ آغاز تھیں دھرنوں اورجلسوں میں پیش آنے والےواقعات سےدل برداشتہ ہوکر شرکت کومحدود کرتی گئیں۔
معاملہ رکا نہیں، خان صاحب وزیراعظم بننے کے لئے اتنے بےچین اور بےقرار ہوئے کہ جن روایتی، موروثی، پیری، خاندانی، نسلی، برادری اور پیسے کے بل بوتے پر سیاست کرنے والوں کو مسترد کرتے تھے، انہیں ترنگا پہناکر اپنے گلے کا ہار بنالیا۔
چند روز پہلے ایک نجی ٹی وی کی تقریب میں خان صاحب نے اس معاملے پر میری اور میرے محترم ساتھی رؤف کلاسرا کے تلخ سوالوں پر یہ کہہ کر تسلی کرانے کی کوشش کی وہ گزشتہ الیکشن میں نئے چہروں کا تجربہ کرکے ہارگئے تھے لیکن اب انہیں تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے جو انہیں وزیراعظم بنادیں۔
ہم نے چند کرپٹ ترین صاحبان کی نشاندہی کی تو کہا وہ جب وزیراعظم بنیں گے تو انہیں ٹھیک کردیں گے، ہمارے لیے بڑی حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ وہی لوگ تھے جن کو خان صاحب ملک کی تباہی کا حقیقی ذمہ دار بھی سمجھتے تھے آج اپنے نظریات کو ان ہی موسمی پرندوں کی ذات پر قربان کردیا، انہیں الیکٹبلز قرار دے کر وہ نہ صرف ان کو اپنی مجبوری قرار دیتے ہیں بلکہ اب سرعام دیوانہ وار ان کی صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں ۔
پارٹی کارکن کہتے ہیں کہ لیڈر کو خبر نہیں کہ وہ نوجوانوں کی آس اور خوابوں کی تعبیر پر پانی پھیر رہے ہیں۔
اصولوں پر سمجھوتہ اقتدار کی خاطر کررہے ہیں جو باقی سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے۔دیرینہ کارکن سمجھتے ہیں کہ کاش خاں صاحب اس شکست خوردہ سیاسی نظام کےخلاف اپنی 22 سالہ تنہا جدوجہد کو لمحہ بھر مڑ کر دیکھ لیتے، کاش وہ اپنی سیاسی فہم سےاس بات کا ادراک کرتے کہ یہی گمنام کارکن تھے جنہوں اس جماعت کو 2013 کی مقبول جماعت بنایا تھا۔
کاش غیر مقبول فیصلوں سے پہلے ایک نظر اسی سوشل میڈیا پر ڈال لیتے جو نئےپاکستان کے نظرئیے کو دنیا بھر میں اجاگر کر تا رہا آج ان کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے، اپنے انصاف کے مینار کو مسمار کرنے سے پہلے اس کی بنیاد رکھنے والے بانی سرکردہ شخصیات کی زندگیوں کے تجربات سے ہی استفادہ کرلیتے۔
یقین کر لیتے کہ آپ کو وزیراعظم الیکٹبلز نے نہیں عوام نے اپنے ووٹ سےبناناہے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب الیکٹبلز چگ گئے پارٹی ٹکٹس، منزل تو ابھی دور ہے لیکن یہ ٹائٹینک تو سواروں کے غیر ضروری اضافی بوجھ کے باعث ابھی سےہچکھولےکھارہا ہے، خدا خیر کرے ۔۔!
زمینی حقائق ملاحظہ کریں توپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گنگ ہے،ہر قسم کی پابندیاں لگائی جاچکی ہیں، مزید قدغنیں عائد اور فیصلے مسلط کئے جارہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقیت ہےکہ تمام تر کوششوں کے باوجود سوشل میڈیا ابھی کچھ کنٹرول سے باہر ہے۔
سوشل میڈیا کو جتنا بھی برا بھلا کہا جائے لیکن موجودہ حالات میں شاید یہ وہی واحد ذریعہ ہے جو کچھ پیارے، نیارے اور نوازے الیکٹربلز کے نئے پاکستان بنانے کے ارادوں، ووٹ کی پرچی کو حقیر قرار دینے اور جواباً عوام کی "والہانہ " محبت کےاظہار کےمناظر کو بغیر ایڈٹ آپ تک پہنچارہا ہے۔
ملکی سیاست کا نیارنگ یہ بھی ہےکہ عوام کی خدمت کے جھوٹے نعرے پر ووٹ لینے کا نعرہ متروک ہوچکا ہے۔
روایتی زبان بندی کے راستے مستود ہوچکے ہیں، وقت کے ساتھ سوچ بدل چکی ہے، بندوق کی نوک پر کراچی کا ووٹ لوٹنے کا سیاہ دور چھٹ چکا ہے، سندھ میں دس سالہ اقتدار کا حساب مانگا جارہا، پنجاب اور جنوبی پنجاب کے خاک آلود چہرے اپنی محرمیوں کا حساب اور الگ صوبہ چاہتے ہیں۔
بلوچستان کے جری نواب اپنے چہروں پر معصومیت طاری کرنے پر مجبور ہیں، مذہب کے نام پر خیبرپختون کو غلام بنانے کی سازش بےنقاب ہوچکی ہے۔
عوامی شعور کی منزل کا اندازہ لگائیں کہ آج ننگے پاؤں عمرے کی ادائیگی پر واہ واہ کی بجائے کروڑوں کے وی آئی پی طرز سفر پر لعن طعن کی بحث زبان زدعام ہے۔
حب الوطنی، سادگی اور ایمانداری کے دعوؤں کے سات پردے، کاغذات نامزدگیوں پر تحریر اعداد و شمار کے ہیرپھیر سےچاک ہورہےہیں،سیاست کےحمام میں سب ننگے اور ایک دوسرے کو کن اکھیوں سےدیکھنے کےبھی قابل نہیں رہے۔سیاسی جماعتوں کےاقتدار اور انتظار کےوقتوں کےفیصلےمیرٹ اورانصاف کا منہ چڑھارہےہیں نتیجتاًپارٹیوں کے اندر رسہ کشی کاشرمناک کھیل جاری ہے۔
امر واقع ہےکہ 2018 کی انتخابی مہم اور معرکہ بڑی حد تک سوشل میڈیا پر منتج ہوگا۔بظاہر نظر آرہاہے کہ خود کو الیکٹبلز کہنے والے آئندہ انتخابات میں فتح حاصل کرپائیں یا نہیں، انہوں نے اپنی شاطرانہ چالوں سے دیرینہ ،مخلص پارٹی کارکنوں اور ٹکٹ کےحقیقی حقداروں کو چاروں شانے چت ضرور کردیاہے۔
سیاست کےروایتی کھیل کاآخری معرکہ جاری ہے،میری اطلاع ہےکہ ایلکٹبلز دوہری ایذیت کے شکارمسافر بن چکے ہیں ،حقدارامیدواروں کے سروں پر پاؤں رکھ ٹکٹ تولےچکےاب انہیں خان سے انتخاب ہرصورت جیتنے کےوعدے کی تکمیل کی ابتلاءکاسامناہے ان میں 60 فی صد ایسے ہیں جو اپنے علاقوں میں 15 سے 30 ہزارتک ذاتی ووٹ بنک رکھنےکےباوجود شکست کے خوف میں مبتلاء ہیں ان میں ن لیگی الیکٹبلز بھی شامل ہیں۔
یقینی طور پر کہانی بدل رہی ہے،سمجھناچاہئےکہ آپ صرف عوام نہیں بلکہ بااثر اور طاقتور ووٹر ہیں جو اپنے فہم اورشعور سےبہتر فیصلےکرکےملک کی تقدیربدل سکتےہیں،مراعات یافتہ طبقوں،پیشہ ور انتخابی چہروں اور طاقتور گروہوں سےمقابلہ نہیں کرسکتےلیکن کم ازکم اپنی حثیت کےمطابق چھوٹے چھوٹے علاقائی بت ضرور توڑ سکتےہیں،لوٹوں کی الیکٹبلز کےنام پرمفاد پرستانہ سیاست کو ہمشہ کےلئے دفن کرسکتے ہیں،کوئی اپنےپاوں پر خود کلہاڑا مارنے پربضد ہے تو اس کو اس زخم کا مزا تو چکھا سکتےہیں،تبدیلی آئے ناآئے۔
آپ کےووٹ کےدرست استعمال سے کم ازکم اتنا ضرور ہوگاکہ سیاسی قیادت کو صحیح فیصلےکرنےکاسبق مل جائےگا ۔دس برس کی جمہوریت کی طبعی عمر ضیائی مارشل لاء کے گیارہ سالہ سیاہ مدت کا رکارڈ ضرور توڑ دے گی اور جمہوری تسلسل کے نتیجے میں سیاسی آمریت کا بھی خاتمہ جائےگا۔!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔