27 اگست ، 2018
سوشل میڈیا آزادی اظہار کا ذریعہ یا آزادی اظہار سلب کرنے کا باعث، بے جا آزادی اور لعن طعن کے آزادانہ استعمال نے نئے سوالات اٹھادیئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈيا کی بہتات اور زيادہ استعمال سے آزادی اظہار مضبوط ہوتی اور اسے مزید قوت ملتی لیکن دیکھا جارہا ہے کہ یہ آزادی اظہار کو سلب کرنے کا سبب بن رہا ہے، وہ یوں کہ کسی کے ایک معاملے پر اتنا شدید ردعمل اور اتنی یلغار ہوجاتی ہے اور اسے اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتاہے کہ حقیقت بدل جاتی ہے اور بدلے ہوئے موقف پر ذہنی اذيت اور ایذا رسانی کا سلسلہ تھمتا نہیں۔
یوں سوشل میڈيا کے وہ ٹولز جس میں فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور دیکر ذرائع شامل ہیں، آزادی اظہار کو فروغ دینے کے بجائے ایک لحاظ سے سلب کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور کسی کو ہدف بنالیا جائے تو باقاعدہ جعلی اکاؤنٹس بناکر اس پر ایسی یلغار ہوتی ہے اور اس کے موقف کے وہ مطلب نکال لیے جاتے ہيں جو خود رائے دینے والے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
اگر چہ پاکستان میں عام انتخآبات کے موقع پر فیس بک اور ٹوئٹر نے جعلی اکاؤنٹس بند کرنے کے اقدامات کیے گئے لیکن یہ اقدامات کافی ثابت نہیں ہورہے۔
سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں یلغار کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سلیم صافی بھی شامل ہیں تاہم سینیر صحافیوں نے سلیم صافی کی کردار کشی کی مہم کی مذمت کی ہے۔
آزادی اظہار کا حق چھیننے کے لیے کردار کشی کو صحافتی حلقوں نے مسترد کردیا ہے، اس کے ساتھ سیاسی رہنماؤں نے بھی سلیم صافی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے جنرل سیکرٹری رضا ہارون کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا ہے سلیم صافی پاکستان کے انتہائی محترم صحافی اور اپنے کام سے مخلص انسان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کو چیلنج نہیں کر سکتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اگر آج سلیم صافی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کل دوسرے بھی اس کی زد میں آئیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دوسرے صحافی اس معاملے میں سلیم صافی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دوسری جانب سلیم صافی کےحق میں پشاور پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا جس کا اہتمام خیبر یونین آف جرنلٹس اور پریس کلب نے کیا تھا۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر صحافی سلیم صافی کے خلاف غلط بیانی روکی جائے۔
اس موقع پر صدر خیبر یونین آف جرنلسٹس کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت پر حملوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کا نوٹس لیا جائے اور سلیم صافی کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کی تحقیقات کی جائیں۔