پاکستان
03 اگست ، 2012

سپریم کورٹ : توہین عدالت کا نیا قانون مکمل طور پر کالعدم قرار

سپریم کورٹ : توہین عدالت کا نیا قانون مکمل طور پر کالعدم قرار

اسلام آباد … سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے نئے قانون کو مکمل طور پر کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ نیا قانون عدالتی اختیار کو کم کرنے کی کوشش ہے اور اس کی کئی شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کچھ لوگوں کو استثنیٰ دینا آئین پاکستان کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے کے وقت اٹارنی جنرل عرفان قادر کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ تقریباً 21 صفحات پر مشتمل فیصلے پر سب سے آخر میں چیف جسٹس نے دستخط کئے۔ فیصلے میں توہین عدالت کے نئے قانون کو اس کے وجود کے دن 12 جولائی 2012ء سے ہی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ توہین عدالت کا نیا قانون غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور سرے سے موجود ہی نہیں ہے یہ قانون عدالتی اختیار اور وقار کو کم کرنے کی کوشش ہے، اس کی کئی شقیں غیر آئینی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ نئے قانون کی شق دو اے اور شق 3 آئین کے خلاف ہیں۔ صدر، وزیراعظم اور دیگر کو استثنیٰ دینا آئین میں ترمیم کرنے کے مترادف ہے۔ آئین کا آرٹیکل 248 ون کسی کو فوج داری استثنیٰ نہیں دیتا، عوامی عہدہ رکھنے والے کسی بھی شخص کو توہین عدالت سے استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ توہین عدالت پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے پاس سزا دینے کا اختیار ہے۔ فیصلے میں کہا گیاکہ قانون کی شق 6 عدلیہ کی آزادی کے اصول کے منافی اور غیر آئینی ہے۔ مقدمہ ایک جج سے دوسرے کو منتقل کرنا عدالت کا اختیار ہے، نئے قانون کی شق 8 کے ذریعے اس عدالتی اختیار کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ فیصلے میں کہاگیا کہ قانون کی شق11 آئین کے آرٹیکل 37 ڈی سے متصادم ہے۔ اس شق کا تعلق سزا پر اپیل سے متعلق ہے اور یہ عدالتی وقار پر سمجھوتہ ہوگا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ 2003ء کے توہین عدالت قانون کو ایسے ہی لاگو سمجھا جائے جیسا کہ وہ 12 جولائی 2012ء سے پہلے تھا۔

مزید خبریں :