11 جولائی ، 2019
بالآخر پاکستان کرکٹ ٹیم نے ’’اگر مگر‘‘ اور’’ دوسروں پر انحصار کرنے‘‘ کےعذاب سے چھٹکارا پالیا۔ بھارت اور نیوزی لینڈ نے انگلینڈ سے شکست کھا کر پاکستان کی پیش رفت کو روکا اور 2019 ورلڈ کپ ٹائٹل کی دوڑ سے باہر کیا، پاکستانی شاہین آخری چارمیچز میں مسلسل فتوحات کے باوجود سیمی فائنل میں رسائی حاصل نہ کرسکے۔
بقول ثاقب لکھنوی۔۔۔
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
شائقین نے قومی ٹیم کو میگا ایونٹ سے باہر کرنے کا ذمہ دار ان دونوں ہی بڑی ٹیموں کو ٹھہرایا، پھر بھی ایک آس باقی تھی کہ بنگلہ دیش کیخلاف میچ جیت کر رن ریٹ بہتر کریں گے اور سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بنگال ٹائیگرز کیخلاف کامیابی کے بعد بھی گرین شرٹس کیلئے مشن ورلڈکپ ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ رہا۔
سوشل میڈیا میں قومی ٹیم کی حمایت میں پوسٹ شئیر کیے جارہے ہیں، قومی ٹیم کو نیوزی لینڈ سے بہتر قرار دیا جارہا ہے، میں نے اپنےآفس کے کچھ ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ ٹیم اتنی محنت کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر پہنچی اور ٹاپ فور کی دو ٹیموں کے خلاف بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ٹیم نے انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کیخلاف شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا لیکن ٹیم دیر سے جاگی اسے ورلڈ کپ کے آغاز سے ہی اچھا پرفارم کرنا چاہیے تھا۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف میچ ہی سے ٹیم کی خراب کارکردگی سامنے آگئی تھی اور جب آڑے ہاتھوں لیا گیا تو انگلینڈ ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کیخلاف میچز جیتنے میں کامیاب ہوئے اور سیمی فائنل میں رسائی کیلئے دوسری ٹیموں کے رحم وکرم پر رہے ۔
ورلڈ کپ کے پہلے ہی میچ میں قومی ٹیم کو ویسٹ انڈیز کیخلاف 7 وکٹوں سے عبرتناک شکست ہوئی۔ قومی ٹیم نے 2019 ورلڈ کپ میں سب سے کم اسکور 105 رنز بنانے کی تاریخ بھی رقم کی۔
ٹیم کی خراب پرفارمنس پرشائقین نے ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا، جس کے بعد ٹیم خواب خرگوش سے کچھ حد تک جاگ گئی۔
دوسرا میچ میزبان انگلینڈ کے ساتھ ہوا جس میں ٹیم نے شاندار کم بیک کیا اور 14رنز سے کامیابی حاصل کرکے شائقین کرکٹ کا غصہ ٹھنڈا کیا، اس فتح کے بعد قومی ٹیم ’’چوڑی‘‘ ہوگئی، اس میچ میں غیر متوقع طور پر ٹاپ آرڈر محمد حفیظ، بابر اعظم، سرفراز احمد نے اچھا پرفارم کیا۔
بدقسمتی سے سری لنکا کیخلاف تیسرا میچ بارش کی نذر ہوگیا، اس طرح دونوں ٹیموں کو 1,1 پوائنٹ ملا اور قومی ٹیم اس وقت کے پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ فور پر پہنچی۔
دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کیخلاف چوتھا میچ بھی بارش سے متاثر ہونے کا خطرہ تھا جس کےلیے پوری قوم رحمت باراں کے رکنے کی دعا کرنے لگی۔ بارش ہوجاتی تو ٹیم کا کچھ بھرم رہ جاتا، بولرز نے اپنا کام تو کیا لیکن پاکستانی بیٹسمینوں نے ہمیشہ کی طرح بولرز عامر، وہاب کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔
آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ ورانر اور کپتان ارون فنچ نے جس طرح بیٹنگ کی ایسا لگ رہا تھا کہ اسکور 350 سے 380 تک جائے گا البتہ پاکستان کوجیت کیلئے 308رنز کا ہدف ملا لیکن فخرزمان، شعیب ملک، محمد حفیظ، آصف علی کی جلد بازی لے ڈوبی۔ اس طرح ٹیم جیتا ہوا میچ ہار گئی لیکن ٹیل اینڈرز حسن علی اور وہاب ریاض نے آسٹریلیوی بولرز کے سامنے مزاحمت بھی کی لیکن وہ بھی ٹیم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ گئے۔
ہائی ولٹیج میچ ’’پاک بھارت ٹاکرا‘‘ جس کے لیے بھارت نے تو خوب تیاری کی لیکن ہمارے پلیئرز شاید اسی زعم میں مبتلا رہے کہ ہم نے بھارت کو چیمپئنز ٹرافی فائنل میں 180رنز سے زیر کیاتھا تو اس بار بھی معرکہ سر کرلیں گے۔ حالانکہ اُس میچ کے بعد ایشیا کپ 2018میں بھارت کیخلاف دو میچز میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔
جب کپتان کی نیند پوری نہ ہو اور مانچسٹر کے میدان میں اہم میچ کے دوران کپتان جمائیاں لے رہا ہو اور ٹاپ آرڈر کی باڈی لینگویج یہ بتار ہی ہو کہ انہیں اس میچ سے کوئی دلچسپی نہیں تو وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی پاکستان کی عالمی کپ کی تاریخ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کی روایت برقرار رہی۔
پےدر پے شکست کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا، ٹیم میں گروہ بندی، بھارت کیخلاف میچ سے قبل کھلاڑیوں کی برطانیہ میں شیشہ پینے کی ویڈیو، پلیئرز اور کوچ مکی آرتھرسے اختلافات اور کپتان سرفراز کو تبدیل کرنے کی سرگوشیاں ہرجگہ سنائی دیں۔
ٹیم کو ورلڈ کپ ٹاپ فور میں جگہ بنانے کیلئےآخری 4میچز جیتنے تھے، جنوبی افریقا کیخلاف میچ میں ’’بھارت کے داماد شعیب ملک ‘‘اور حسن علی کو بٹھایا تو حارث سہیل اور عماد وسیم کو ٹیم میں شامل کیا گیا، دونوں ہی کھلاڑیوں نے اپنی سلیکشن کودرست ثابت بھی کیا اور ٹیم کو جنوبی افریقا کیخلاف اہم میچ میں 49 رنز سے کامیابی دلائی۔
پاکستان کا اگلہ مقابلہ ایونٹ کی ’’ناقابل شکست نیوزی لینڈ‘‘ کے ساتھ تھا۔ بابر اعظم نے ناقابل شکست سنچری داغی اور حارث سہیل نے بھی اچھی اننگز کھیلی، ٹیم نے 6 وکٹوں سےناقابل شکست نیوزی لینڈ کا شکار کیا اور پھر’’اگر مگر‘‘ کی کہانی شروع ہوگئی ،1992ورلڈ کپ میں بھی ٹیم کی ایسی ہی کارکردگی تھی۔ ’’اگر مگر‘‘کی وجہ سے ٹیم سیمی فائنل میں پہنچی تھی۔
سیمی فائنل میں تیسری رکاوٹ افغانستان تھا، پوری قوم ٹیم کی کامیابی کیلئے ایسے دعاگو تھی کہ جیسے پاک بھارت میچ ہو رہا ہو۔ ہمیشہ کی طرح بولرز شاہین شاہ آفریدی، وہاب ریاض ،شاداب خان اور عماد نے اپنا کام بہترین طریقے سے انجام دیا اور افغانستان کو 227رنز تک محدود تک کیا لیکن اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ قومی ٹیم کو 228 رنز نہیں بلکہ 328رنز کا ہدف ملا ہے۔
156 رنز کے مجموعی اسکور پر کپتان سرفراز سمیت 6کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔ پاکستانی ٹیم کو جیت کیلئے 66 گیندوں پر 72 رنز درکار تھے۔ وہ توبھلا ہو عماد وسیم اور وہاب ریاض کا جنہوں نے ایک بار پھر ٹیم کی لاج رکھ لی اور پاکستان کو ایک اور ذلت آمیز شکست سے بچالیا۔
افغانستان کیخلاف ٹیم کی ایسی کارکردگی نے 1999 ورلڈ کپ میں اس وقت کی’’ بے بی ٹیم بنگلہ دیش‘‘ کے ہاتھوں شکست کی یاد دلا دی تھی۔ اگرچہ پاکستان نے افغانستان کیخلاف 3وکٹوں سے فتح حاصل کی لیکن افغانستان نے آخر دم تک میچ جیتنے کی کوشش کی۔
اس طرح پاکستانی ٹیم قوم کی دعاؤں سے گرتے پڑتے ٹاپ فور میں پہنچ گئی لیکن ’’اگر مگر‘‘ کی کہانی جاری رہی۔ اگر بھارت، انگلینڈ کو ہرا دے تو پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے، لیکن پھر بھارت نے انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کھا کر گرین شرٹس کیلئے مشکلات کھڑی کردیں۔
کرکٹ پر سیاست کو حاوی رکھنے والے بھارت نے رواں سال فروری میں پلوامہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے آئی سی سی 2019 ورلڈ کپ سے باہر کرنے کی کوشش بھی کی تھی تاہم انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ نے بھارتی کرکٹ بورڈ کی درخواست مسترد کردی تھی۔
سونے پر سہاگہ نیوزی لینڈ بھی انگلینڈ سے ہار گیا اور امید کی آخری کرن بھی ختم ہوگئی۔ ’’1992ورلڈ کپ میں یہی ہوا تھا‘‘ پاکستانی ٹیم کب تک دوسروں پر’’تکیہ کرے گی؟ ‘‘ ٹیم خود تسلسل کے ساتھ اچھا کیوں نہیں کھیلتی؟‘‘
بنگلہ دیش کیخلاف میچ میں کوئی معجزہ ہوجاتا تو ٹیم 500 رنز بناکر بنگال ٹائیگرز سے 315 رنز سے جیتتی لیکن پاکستان نے اتنے ہی رنز کا ٹارگٹ بنگالیوں کو جیت کیلئے دیا یعنی ’’دل کے ارماں آنسوں میں بہہ گئے، ہم بنگلہ دیش کیخلاف میچ جیت کر بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے۔‘‘
2019 ورلڈ کپ میں پاکستانی بولرز اور ٹیل اینڈرز ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار میں کوشاں نظر آئے۔ محمد عامر، وہاب ریاض، شاہین شاہ آفریدی، حارث سہیل،اور عماد وسیم نے ٹیم کو کئی فتوحات سے ہمکنار کیا۔ آخری کے چار میچز میں حارث سہیل ، بابر اعظم اور عماد وسیم کی بیٹنگ زبردست رہی۔
اگر 2015 ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی ٹیم کا یہی حال تھا۔ لیکن موجودہ ٹیم کے مقابلے میں 2015 ورلڈ کپ کی ٹیم بہتر تھی جس کی وجہ سے پاکستان کوارٹر فائنل میں پہنچا لیکن اس وقت بھی ٹیم کی ساتھ وہی مسائل(بیٹسمینوں کی غیر مستقل مزاجی، مس فیلڈنگ ،خراب بیٹنگ اور بولنگ) تھے۔ٹیم میں ہوم ورک کابھی فقدان رہا۔
بقول قابل اجمیریؔ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ٹیم نے 2015 ورلڈکپ میں خراب پرفارمنس کے بعد کیا سیکھا اور 2019 ورلڈکپ میں دنیا کی بہترین ٹیموں سے ٹکرانے کیلئے کتنی تیاری کی وہ تو آج سب کے سامنے ہے۔ گرین شرٹس نے 19-2015 تک 18 ون ڈے سیریز کھیلیں جس میں پاکستان کو 8 میں کامیابی 9 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک سریز برابر ہو گئی تھی۔
پاکستانی ٹیم نے ان برسوں میں صرف زمبابوے، سری لنکا، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کیخلاف فتوحات حاصل کیں لیکن آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں وائٹ واش ہونے کے بعد بھی کوچ اور سلیکٹرز نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور عالمی کپ کیلئے ’’بہترین ٹیم‘‘تیار کرنے میں ناکام رہے۔ سلیکٹرز اپنی مہارت کو بروئے کار نہ لاسکے، میرٹ کے نام پر کھلاڑیوں کے ساتھ مذاق کیا گیا اور من پسند کھلاڑیوں کو منتخب کرکے بھیج دیاگیا۔
اگر کوچ، سلیکٹرز اور کپتان ایک پیج پر ہوتے، ٹیم اور کپتان کا چناؤ میرٹ پر ہوتا۔ جب پلیئرز اپنے لئے نہیں ملک کیلئے کھیلتے، جب کرکٹ بورڈ ٹیم میں گروپ بندی کے معاملے کو دبانے کے بجائے اس کی تحقیقات کرتا اور ذمہ دار پلیئرز کو ٹیم سے باہر کرتا تو ٹیم میں گروپ بندی، کھلاڑیوں کی شیشہ پینے کی ویڈیو، پلیئرز اور کوچ مکی آرتھر کے درمیان اختلافات اور کپتان سرفراز کو تبدیل کرنے کی خبریں منظر عام پر نہیں آتیں۔
پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز کے خلاف ذلت آمیز شکست سے بچ جاتی، آسٹریلیا کے خلاف جیتا ہوا میچ نہ ہارتی تو پاکستان کا مشن ورلڈکپ ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ نہ ہوتا، اس وقت ٹیم کو مربوط اور منظم میں لانے کی ضرورت ہے جس کے لیے بہرحال سخت اور ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑیں گے۔
پاکستان کا اگلا مشن ’’2020آئی سی سی ورلڈٹی ٹوئنٹی‘‘ ہے اور پہلا ہی میچ میزبان آسٹریلیا سے ہے، اس وقت پاکستان ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے۔ توقع ہے کہ سلیکٹرز ایک مضبوط ٹیم تشکیل دے گے اور ٹیم آئی سی سی ورلڈ کپ میں ہونے والی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھے گی۔