مصباح الحق نے ٹیم کی سلیکشن کو مذاق بنا دیا

مصباح 3 سال کیلئے بورڈ میں پرکشش معاوضے پر ملازمت تو حاصل کر چکے تاہم بظاہر اپنے کیے گئے فیصلوں کے تناظر میں ایک بار پھر تنقید کے دائرے میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں — فوٹو:فائل 

جنوبی افریقا کے خلاف 2010 میں حادثاتی طور پر کپتان بن جانے والے مصباح الحق خان 2017 تک پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے کپتان رہے۔

اس عرصے میں مصباح نے ریکارڈ 26 ٹیسٹ بطور کپتان پاکستان کیلئے جیتے تاہم باوجود اس کے انھیں قیادت کے معاملے میں عمران خان، جاوید میانداد اور وسیم اکرم کے ہم پلہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔

مصباح اگرچہ تین سال کیلئے بورڈ میں پرکشش معاوضے پر ملازمت تو حاصل کر چکے تاہم بظاہر اپنے کیے گئے فیصلوں کے تناظر میں وہ ماضی کی طرح ایک بار پھر تنقید کے دائرے میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

فٹنس کو ترجیح دینے والے مصباح الحق نے دورہ آسڑیلیا کیلئے 37 سال کے محمد عرفان کو یکم ستمبر 2016ء کے بعد قومی اسکواڈ کیلئے منتخب کرنے کے ساتھ ساتھ 33 سال کے بائیں ہاتھ کے اسپنر حیدرآباد سندھ کے کاشف بھٹی اور 9 ٹیسٹ میں 30.14 کی اوسط سے 28 وکٹیں لینے والے دائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر محمد عمران خان کو جنوری 2017ء کے بعد پاکستان ٹیم کیلئے منتخب تو کر لیا لیکن وہ یہ بھی بتا دیتے کہ ان کرکٹرز کے فٹنس ٹیسٹ کب اور کہاں ہوئے تو اچھا ہوتا۔

مصباح الحق ماضی کی طرح فٹنس کا فلسفہ ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور ان کے اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ وہ کس قدر اصولوں کے پاسدار ہیں، پھر سری لنکا کے خلاف 2 ٹی 20 کھیلنے کے بعد احمد شہزاد اور عمر اکمل کو دودھ میں سے مکھی کی طرح باہر نکال دیا گیا۔

28 سال کے آصف علی جنھوں نے آخری 25 ٹی 20 میں 173گیندوں پر 211رنز بنائے، اور آخری چار میچوں میں وہ کوئی چھکا نہیں مار سکے، ان کے ساتھ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے فخر زمان جو آخری 10 ٹی ٹوئنٹی میں محض 108 رنز بنا پائے ہیں وہ کس بنیاد پر دورہ آسڑیلیا کے ٹی 20 اسکواڈ میں موجود ہیں۔

پاکستان کیلئے ایک ٹی 20 کھیلنے والے امام الحق کے سلیکشن کے دفاع میں مصباح الحق نے مؤقف اختیار کیا کہ فیصل آباد میں دوران ڈومیسٹک ٹی 20 چوں کہ بائیں ہاتھ کے بیٹسمین نے 2 مین آف دا میچ ایوارڈ لیے، اسلیے ان کا انتخاب ہوا، تو پھر وہ ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکور احمد شہزاد کو کیوں نہ دیکھ سکے۔

پھر لیجنڈری لیگ اسپنر مرحوم عبدالقادر کے فرزند عثمان قادر جنھیں مصباح الحق نے بطور کپتان کبھی کسی دورے پر لے جانے کی زحمت گوارا نہ کی، اب اچانک کس غیر معمولی پرفارمینس پر وہ لیگ اسپنر کو آسڑیلیا لے کر جارہے ہیں، ان کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہ تھا۔

کچھ ایسا ہی انتخاب بنوں کے 24 سال کے بائیں ہاتھ کے بیٹسمین خوشدل شاہ کا بھی ہے جن کی ون ڈے میں کارکردگی غیر معمولی ہے، اور انھیں ٹی 20 کیلئے نا جانے کس بنیاد پر اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

شعیب ملک اور محمد حفیظ کے بارے میں مصباح الحق کے پاس کوئی واضع پالیسی نہیں کہ آیا، دو سابق کپتان ان کی مستقبل کی منصوبہ بندی میں ہیں، یا پھر وہ مستقبل میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے دونوں کا احمد شہزاد اور عمر اکمل کی طرح استعمال کریں گے۔

مصباح الحق کا شمار پاکستان کرکٹ کے انتہائی دفاعی انداز رکھنے والے کرکٹرز میں کیا جاتا ہے جو اپنے انداز کے سبب شدید تنقید کی زد میں رہے تاہم اپنی سادہ طبیعت اور سر جھکا کر بورڈ کی بات ماننے کی حکمت عملی نے ان کے راستے کبھی دشوار گزار نہیں ہونے دیے۔

4 ستمبر 2019ء کو اگر پاکستان کرکٹ بورڈ مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور کوچ نا بناتا،تو شاید وہ پاکستان سپر لیگ 2020 بطور کھلاڑی ہی کھیلتے جبکہ 2017 میں بطور کپتان 6 اننگز میں مصباح الحق دورہ آسڑیلیا میں محض 76 رنزہی بنا سکے تھے۔

ان سے زیادہ رنز بطور بولر کھیلنے والے محمد عامر نے 6  اننگز میں 118رنز بنائے، اب دیکھنا ہوگا کہ بطور بیٹسمین آسڑیلیا میں 10 اننگز میں صرف ایک نصف سنچری اسکور کرنے والے مصباح الحق کیا کچھ لے کر وطن لوٹتے ہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔