28 نومبر ، 2019
کیا وقت چل رہا، کیا سرکسیں لگی ہوئیں، پرویز مشرف غداری کیس، فیصلہ چھوڑیں، وقت کیا کیا دکھا جاتا ہے۔
کل پرویز مشرف، نواز شریف پر مقدمے چلا رہے تھے، پھر نواز شریف نے پرویز مشرف پر مقدمے چلوائے، کل پرویز مشرف حکمران، نواز شریف باہر، پھر نواز شریف حکمران پرویز مشرف باہر، کل پرویز مشرف، نواز شریف کو واپس نہیں آنے دے رہے تھے۔
پھر نواز شریف پرویز مشرف کو نہیں آنے دے رہے تھے، کل دونوں ملک میں، دونوں تندرست، دونوں عہدوں پر، آج دونوں باہر، دونوں بیمار، دونوں سے اقتدار چھن چکا، سورۃ رحمٰن، ارشادِ باری تعالیٰ، ہر شے فانی، باقی رہ جانے والی صرف اللّٰہ پاک کی ذات۔
کیا وقت چل رہا، کیا سرکسیں لگی ہوئیں، آرمی چیف ایکسٹینشن، حکومتی لا اُبالی پن، کنفیوژن، نااہلی، ناتجربہ کاری، تبدیلی سرکار کی 16مہینوں کی فیصلہ سازی، ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، کتنا حساس معاملہ، فروغ نسیم، بابر اعوان، اٹارنی جنرل، وزارتِ قانون کے ہوتے ہوئے حالت یہ، وزیراعظم ایک صفحے پر چند لائنیں لکھ کر آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے دیں، بعد میں پتا چلے یہ کام تو صدرِ مملکت کا، پھر صدرِ مملکت دستخط کریں، پتا چلے اس سے پہلے تو کابینہ کی منظوری ضروری، کابینہ سے منظوری لی جائے، پتا چلے اب دوبارہ صدر کی منظوری ضروری۔
حکومت بتائے صدر کے دستخط ہو گئے، لیکن صدر ٹی وی انٹرویو میں فرمائیں، ایکسٹینشن سمری آئے گی تو دستخط کر دوں گا، مگر اگلے انٹرویو میں فرمائیں، سوری یاد نہیں رہا، میں تو ایکسٹینشن سمری پر دستخط کر چکا‘‘۔ ہر حکومتی وزیر اس معاملے پر بیان بازی کرے مگر کسی کو یہ پتا نہیں کہ توسیعی نوٹیفیکیشن کہاں، کتنا اہم معاملہ، کیا پنگ پانگ کھیلا گیا۔
کیا وقت چل رہا، کیا سرکسیں لگی ہوئیں، حکومتی نالائقی سے صرف آرمی چیف ایکسٹینشن معاملہ ہی عدالت نہیں پہنچا، ڈی پی او پاکپتن معاملہ، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، معاملہ عدالت جا پہنچا، آئی جیز تقرری ایشو، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، معاملہ عدالت جا پہنچا، اعظم سواتی کیس، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، معاملہ عدالت جا پہنچا، وفاقی محتسب تقرری، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، معاملہ عدالت جا پہنچا، الیکشن کمیشن ممبران تقرری، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، معاملہ عدالت جا پہنچا، ابرار الحق ریڈ کریسنٹ تعیناتی، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، معاملہ عدالت جا پہنچا، نواز ضمانت، ای سی ایل، حکومتی ہینڈلنگ ایسی، خود عدالتیں بھی حیران، اوپر سے عمران خان، فردوس عاشق اعوان، غلام سرور کی اپنی ہینڈلنگ ایسی کہ توہین عدالت سے بال بال بچے، جسٹس چوہدری، جسٹس ثاقب نثار کا دور ہوتا تو دانیال عزیز، طلال چوہدری، نہال ہاشمی جیسا نتیجہ نکلتا، سنا جا رہا وزیراعظم ایکسٹینشن معاملے پر اپنی قانونی ٹیم پر برہم ہوئے کہ ’’یہ مس مینجمنٹ کیوں‘‘۔
وزیراعظم صاحب یہ اس لئے کہ ایک نالائقی، دوسرا ناتجربہ کاری، تیسرا جزا سزا کا نظام نہیں، سب کے سب من موجی، جس کی جو مرضی کہہ دیں، جس کی جو مرضی کر لیں، لہٰذا جو ہونا تھا، وہی ہوا۔
کیا وقت چل رہا، کیا سرکسیں لگی ہوئیں، 16مہینوں سے الیکشن کمیشن بمقابلہ حکومت، بیان بازیاں، ہلکی ڈھولکی پر مسلسل ہلکی ہلکی لڑائیاں، الیکشن کمیشن کے دو ممبر ریٹائر ہو چکے، چند دنوں بعد چیف الیکشن کمشنر ریٹائر ہونے والے، مطلب ایک غیر فعال الیکشن کمیشن اوپر سے جانبداری کا تاثر، اسی لئے کہوں، موجودہ چیف الیکشن کمشنر والے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی فارن، ممنوعہ فنڈنگ کیس سننا چاہیے نہ کوئی فیصلہ کرنا چاہیے، پھر ایک جماعت نہیں تمام سیاسی جماعتوں کا آڈٹ ہونا چاہیے۔
تمام سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگ، ممنوعہ فنڈنگ یا باقی بے ضابطگیوں کا پتا چلنا چاہیے، مگر تب جب نیا چیف الیکشن کمیشن آ جائے، جب الیکشن کمیشن کے ممبران پورے ہو جائیں، یہاں یہ بھی سنتے جائیے، اپنی اصولی سیاست ایسی کہ کل جب اپنا فائدہ تھا تو مولانا فرما رہے تھے۔
2018ء انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن بھی، چیف الیکشن کمشنر فوراً مستعفی ہو جائیں، آج جب اپنا فائدہ تو وہی مولانا صاحب فرما رہے پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کا فیصلہ یہی چیف الیکشن کمشنر کرکے جائے، اگر ریٹائرمنٹ مسئلہ ہے تو چیف الیکشن کمشنر کو ایکسٹینشن دیدی جائے۔
کیا وقت چل رہا، کیا سرکسیں لگی ہوئیں، 16مہینے ہوگئے، پنجاب سائیں بزدار کے رحم و کرم پر، گورننس، پرفارمنس کا کیا رونا، کچھ اچھے، کچھ نئے کی کیا توقع، جو چند چیزیں بہتر تھیں وہ بھی خراب ہو رہیں، گو کہ تبدیلیوں کا موسم شروع ہو چکا، مگر وقت بہت ضائع ہو چکا، پولیس، پٹوار اصلاحات نہ ہو سکیں، لاہور اسموگ میں، باقی شہر بیڈ گورننس روگ میں، اوپر سے کسی مسیحا، کسی انقلابی، کسی ٹیپو سلطان، کسی محمد علی جناح کے انتظار میں بیٹھی قوم کا اپنا حال یہ، زینب کے بعد سے آج تک دو ہزار ایک سو اڑتالیس زینبیں لٹ چکیں۔
سو فیصد چیزوں میں سو فیصد ملاوٹ، گلی گلی، محلے محلے دھوکے، دو نمبری ایسی کہ مارکیٹ میں پلاسٹک کے انڈے آگئے، بے ایمانی ایسی کہ چڑیا گھر کے جانوروں کی خوراکیں انسان کھا رہے، قصہ مختصر، اوپر لیڈر شپ نہیں، نیچے قوم نہیں، اوپر نیت صاف نہیں، نیچے کچھ پاس نہیں بلکہ پانی تک صاف نہیں، اوپر زبان دراز، نیچے گونگے، اوپر ٹھگ، نیچے پیٹ دی اَگّ، اوپر حکومت تحریک انصاف، نیچے انصاف نہیں، کیا وقت چل رہا، کیا سرکسیں لگی ہوئیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔