15 دسمبر ، 2019
پہلے اتوار کے آنے کی خوشی ہوتی تھی۔ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے ملنے کی۔ اس بار میں ڈرا ہوا ہوں۔ بچوں کی آنکھوں میں سوالات دہکتے نظر آرہے ہیں۔ لاہور کے مناظر میری نظروں سے نہیں ہٹ رہے ہیں۔
دلیل والوں کے ہاتھوں میں پستول، پتھر، ایسے ذہن آخر کیسے بنے؟ وہ کسے خوش کر رہے تھے۔ میرے مستقبل کو میرے بیٹوں کو یہ اشتعال کس نے دلایا۔ اسلامک یونیورسٹی میں بھی ایک نوجوان ایسی ہی گروہی کشمکش کا نشانہ بن گیا۔
اس کے گھر کیا پیغام پہنچایا گیا۔ غلطی ہماری سیاسی فوجی قیادتیں، جاگیردار، علما اور دانشور کرتے آرہے ہیں۔ سزا پی آئی سی کے مریضوں کو مل رہی ہے، سزائیں طالب علموں کے والدین بھگت رہے ہیں۔
کل 16دسمبر ہے، عالم اسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ، اب کے بات اس پر کرنا تھی 1971ء میں تو لگتا تھا کہ ہم صدیوں اس خفت کو بھول نہیں پائیں گے۔ کتنی آسانی سے یہ سب کچھ ذہن سے اُتر گیا۔ مگر ایک پاکستان سے محبت، اس کی قربانیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
48سال سے وہ سچے پاکستانی جنہیں محصورین کہا جاتا ہے، ایک تنگ جگہ میں وہ اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش انہیں باہر نکالنا چاہتا ہے۔ پاکستان انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ادھر مودی ہندوستان کو خالص ہندوئوں کا ملک بنانے کے لیے آئینی ترامیم لا رہا ہے۔
محصورین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ مزید ہجرتیں ہوں گی۔ تاریخ کی پکار کوئی نہیں سن رہا ہے۔ جو مسائل حل نہیں ہوتے، جن انسانوں کا مقدر تاریک ہوکر رہ جاتا ہے ان کی حسرتیں، بددعائیں ان مملکتوں کا پیچھا کرتی ہیں۔ ان کے حکمرانوں کا انجام ہلاکتیں ہوتا ہے۔ ان کے باشندے اطمینان اور سکون کو ترستے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسولؐ، ایک قبلہ، ایک آئین، ایک مملکت کے ہوتے ہوئے بے سمت ہیں۔ جانیں دیتے رہتے ہیں۔ کبھی کرپشن میں نمبر بڑھاتے ہیں کبھی حقوق انسانی کی پامالی میں۔ کبھی اداروں کی لڑائی میں۔
یہ مریض جسکے منہ سے وینٹی لیٹر ہٹا لیا گیا، اس کی روح مجھے کہہ رہی ہے کہ میں بھی اس کا قاتل ہوں۔ میری نسل کے اینکر پرسن، صحافی، شاعر، سینئر وکیل اعتزاز احسن، جسٹس افتخار چوہدری، علی احمد کرد، منیر ملک، امان اللہ کنرانی، رشید رضوی، اویس صاحب، علی ظفر، رضا ربانی، لطیف کھوسہ، ہم سب ذمہ دار ہیں۔
یہ ڈاکٹر عرفان، دوسرے جواں سال مسیحا، یہ ہوائی فائرنگ کرتے وکیل، آئی سی یو میں مشینیں روندتے وکلا سب اپنے ہیں۔سارا دن چینلوں پر مناظر دیکھنے کے بعد ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا ہوگا۔ مواخذہ تو ہم صرف حکمرانوں، افسروں کا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جواں سال مسیحا، یہ دمکتی پیشانیوں والے وکیل سب ہمارے ہیں۔
آئیے! یہ سوچیں کہ وہ انارکی کے کردار کیوں بن رہے ہیں۔ بے نتیجہ لڑائیاں کیوں لڑ رہے ہیں۔ اپنی صلاحیتیں، توانائیاں تعمیر کی بجائے تخریب کی نذر کیوں کر رہے ہیں۔ ہم الگ تھلگ کھڑے ہوکر ان کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کرکے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
کیا اس کی ذمہ دار قومی سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں۔ جو ان کو اشتعال کا درس دیتی ہیں۔ جو اپنے قائدین کی ناجائز دولت کے تحفظ کے لیے ان کی طاقت کو ڈھال بناتی ہیں۔ قومی سیاسی پارٹیوں نے اپنے دھرنوں، ریلیوں، آزادی مارچ کے لیے ان نوجوانوں کا ہی استعمال کیا ہے اور جب تخت مل جاتا ہے تو ان کو بھول جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان نفرتوں کی آگ مدت سے سلگ رہی تھی۔ وزیر صنعت اور وزیر قانون کو شرم نہیں آتی کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں سے وابستہ ان توانائی سے بھرپور گروہوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش نہیں کی۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، آئی جی، ڈی آئی جی کیا صرف وزرا کی درباریت کے لیے سرکاری خزانے سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔
احتجاج جمہوریت کا لازمی عنصر ہے۔ لیکن اس کے بھی آداب ہوتے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں بار بار کہ ایک ایل ایل بی کے ہاتھ نہیں کانپے۔ اس کی آنکھیں نہیں لرزیں کہ وہ ایک اسپتال پر پتھر برسا رہے ہیں۔ انتہائی قیمتی مشینیں روند رہے ہیں۔ قانون کو یوں کھلے عام رسوا کرنے والے قانون کے رکھوالے کیسے ہو سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ کہرام سوشل میڈیا پر مچتا ہے۔
اسے سوشل کہنا ہی نہیں چاہئے یہ تو بے لگام گھوڑے ہیں۔ بدمست ہاتھی، مگر یہ بھی کیسے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کی ذمہ دار پارلیمنٹ بھی ہے جہاں قانون تو بغیر بحث کے بن جاتے ہیں، بحث غیر ضروری موضوعات پر ہوتی ہے۔ اس سے آئندہ نسلیں ایک دوسرے پر الزام تراشی سیکھتی ہیں۔ ہاتھا پائی، کاغذات پھاڑنے کی تربیت حاصل کرتی ہیں۔ اس کی قصور وار عدلیہ بھی ہے جہاں وکیلوں کو ان کے جرم کی سزا کبھی نہیں ملتی۔ اس کی ملزم انتظامیہ بھی ہے اور مملکت کا چوتھا ستون میڈیا بھی۔
جہاں متعلقہ ماہرین سے نہیں بلکہ ناکام سیاستدانوں، نااہل وزیروں سے ہی مسائل کا حل پوچھا جاتا ہے۔ جن کے پیش نظر اپنے وزیراعظم اپنے تاحیات قائد۔ اپنے نابالغ لیڈر کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ٹاک شوز سے اکھڑے اکھڑے ذہن جنم لے رہے ہیں۔ انہیں منزل کا پتا نہیں ہے۔ ان کا رہبر کوئی نہیں ہے۔ تجزیے انہیں راہِ نجات نہیں دکھاتے۔
راہِ نجات اسکول، یونیورسٹیاں اور دینی مدارس دکھا سکتے ہیں۔ ساری نگاہیں درسگاہوں پر ہیں۔ یہی ڈاکٹروں، وکیلوں، اینکر پرسنوں، سرکاری افسروں، فوجی جانبازوں کی نرسریاں ہیں۔ میرے ہیڈ ماسٹرو، پرنسپلو، وائس چانسلرو، ٹیچرو، پروفیسرو، آسمان آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مائوں بہنوں۔ بھائیوں۔ بزرگوں کی سہمی سہمی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ اب ایسے نوجوان سڑکوں گلیوں میں اتارو جو آپس میں محبت کریں۔ ملک کو آگے لے کر جائیں۔ سب نے مل بیٹھ کر ایسا نہ سوچا تو حسرتوں۔ سانحوں۔ المیوں اور محرومیوں سے بھرے ذہن پکی فصلیں اجاڑ دیں گے۔ کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے میں ہاتھ باندھ کر معافی مانگ رہا ہوں کہ اپنے شہروں، اسپتالوں کو محفوظ رکھنے میں میرے الفاظ میری تحریریں ناکام رہیں۔ مجھے اپنے نواسے کی آنسو بھری آنکھیں یاد رہتی ہیں۔ جب اس نے 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے پر یہ سوال کیا تھا کہ ’’نانا! کیا ہم انہیں بچا نہیں سکتے تھے‘‘۔