Time 01 مارچ ، 2020
بلاگ

بھارت 1947 میں واپس چلا گیا

فوٹو: بشکریہ اے بی سی نیوز

آج اتوار ہے، آپ اور ہم بیٹھیں گے اپنی آئندہ نسل کے ساتھ، زیادہ سوالات تو ظاہر ہے کورونا وائرس سے متعلق ہوں گے، بلوچستان اور سندھ میں اسکول بند کیے گئے ہیں۔ بچے خوش تو ہوتے ہیں چھٹیاں ملنے سے، لیکن انہیں تشویش بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہم وطن منہ پر ماسک لگائے گھوم رہے ہیں، پہلے چین سے خبریں آرہی تھیں، اس وبا کے ہاتھوں مرنے والوں کی، اب ایران سے بھی یہ غم ناک اطلاعات آرہی ہیں۔

پاکستان میں بھی یہ وبا پہنچ گئی ہے مگر ہم پہلے سے تیار تھے، اللّٰہ کا فضل ہے کہ ہمیں اس ناگہانی آفت کا مقابلہ بہت استقامت اور شعور کے ساتھ کرنا ہے، سنسنی خیزی اور ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اکیسویں صدی کی ایک بیدار، سمجھ دار قوم کا کردار ادا کرنا ہے۔

گھبراہٹ اور پریشانی کے بجائے اس وبا کے اسباب، اس سے بچاؤ اور اس پر تحقیق ہونی چاہئے، ملک میں اتنی میڈیکل یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں، دوا ساز کمپنیوں کے اپنے تحقیقی شعبے ہیں، صحت کے حوالے سے متعدد این جی اوز ہیں، ملک میں جید اور مستند اطبا موجود ہیں۔

انہیں چاہئے کہ اس بیماری کے بارے میں تحقیق کریں، اللہ تعالیٰ جہاں ایسی بیماریاں ہماری آزمائش کے لیے دیتا ہے وہاں ان کا علاج بھی پہلے سے دیا ہوا ہوتا ہے، اللّٰہ کے نائب کی حیثیت سے ہمیں وہ جڑی بوٹی تلاش کرنی چاہئے جس میں کورونا کے مریضوں کے لیے شفا رکھی ہوئی ہے، احتیاطی تدابیر میں سب سے زیادہ ضروری ہاتھ صاف رکھنے ہیں۔

باہر سے آئیں تو ہاتھ اچھی طرح دھولیں، جہاں اس بیماری کا شبہ ہو وہاں جانے سے گریز کریں،  یہ انسانیت کا امتحان ہے،  ستاروں کی تسخیر کرنے والا، خلا میں چہل قدمی کرنے والا، کائنات کے اسرار و رموز جاننے والا یقیناً اس خطرناک بیماری پر بھی گرفت حاصل کرلے گا۔

آج بچوں سے ہمیں میرؔ و غالبؔ، مغل بادشاہوں کی، جامع مسجد، قطب مینار کی دلّی کے بارے میں بھی باتیں کرنا ہیں، جس کی مسجدوں پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے بدقماش نوجوانوں کی یلغار کو ہمارے بیٹوں بیٹیوں نے ٹی وی پر اپنے موبائل فونوں پر دیکھا ہے، مسلمانوں کی دکانیں جل رہی ہیں، دہلی پولیس صرف ٹی وی ہی نہیں دیکھ رہی ہے، بلوؤں میں خود بھی حصّہ لے رہی ہے۔

پیارے بچو! ایک تھا بھارت، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جہاں کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا، جہاں حکومت صرف ووٹ سے تبدیل ہوئی ہے، جہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے، جہاں سیکولر ازم کا راج ہے، جہاں انتہا پسند نہیں ہیں، یہ دعوے 5اگست 2019کے بعد دھرے رہ گئے ہیں۔

اب بھارت سے زیادہ انتہا پسند ملک کوئی نہیں ہے، جہاں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون ہوئے 200سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، جہاں 73سال بعد لوگوں کی شہریت مشکوک ہوگئی ہے، انہیں دوبارہ اپنی شناخت تسلیم کروانا ہوگی، جہاں مسلمان، ہندو سکھ، عیسائی پارسی سب شہریت بل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جہاں کے دارالحکومت دلّی میں شہریت بل مسلط کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن میں بری طرح ہار گئی ہے۔

وہاں شکست خوردہ امیدوار کپل مشرا کے بھاشن نے آگ لگا دی ہے، یہ کبھی لبرل تھا، ترقی پسند تھا، پھر بی جے پی کو پیارا ہوگیا، خیال تھا کہ الیکشن جیتے گا، وزیر بنے گا مگر شکست فاش نے اسے پاگل بنا دیا۔ 

عین اس روز جب ایک اور انتہا پسند امریکی صدر دلّی میں تھا، اس نے شاہین باغ میں شہریت بل کے خلاف خواتین کو للکارا اور کہا کہ اگر انہوں نے احتجاج ختم نہیں کیا تو وہ اپنے نوجوانوں کو بے لگام کر دے گا، پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ انسانیت کس طرح پامال ہوئی۔ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

شمال مشرقی دہلی میں جہاں وہ الیکشن ہارا تھا وہاں آگ اور گولی کا کھیل کھیلا گیا، ان فسادات نے گجرات کے بلوئوں کی یاد تازہ کر دی، جب مودی وہاں وزیراعلیٰ تھا، بھارت کے لوگوں نے اس پر مودی کو مسترد کرنے کے بجائے پورا ملک اس شدت پسند کے حوالے کر دیا۔

اندرا گاندھی نے تو سقوطِ ڈھاکا کے بعد دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن یہ نظریہ قائم و دائم تھا، اب نریندر مودی نے اسے باقاعدہ زندہ کر دیا،  آج قائداعظم کی بصیرت کی دنیا تعریف کر رہی ہے۔

ضرورت اب اس تحقیق کی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل، سیکولر ازم پر اصرار، عدلیہ، میڈیا، سماج کی آزادی کے 73سال کا نتیجہ اتنا بھیانک کیوں نکلا ہے، بھارت نے تو اپنی مارکیٹ کا رُخ کروانے کے لیے امریکہ یورپ کو اپنی آزاد سماجی زندگی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے ذریعے دکھائی تھی۔

پاکستان پر انتہا پسند دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرکے بھارت کی ایک ارب صارفین کی منڈی میں کاروبار کی دعوت دی تھی، مگر اب 73سال بعد 1947 پھر واپس آگیا،  وہی فسادات، وہی مسلمانوں کا قتل عام،  پاکستان میں تو کبھی 1947کے بعد ایسے فسادات نہیں ہوئے جس میں اس طرح ہندوؤں کا قتل عام کیا ہو۔ مسلمانوں نے مسلمانوں کو تو مارا ہے، بم دھماکے کیے ہیں، لیکن اس طرح مندروں پر سبز پرچم نہیں لہرائے۔

میں سوچ رہا ہوں کہ 1947سے پہلے کے ایسے فسادات کے بعد ہی بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک پاکستان معرض وجود میں آیا، ایک منطقی اور تاریخی نتیجہ، اب 5اگست کے بعد اور خاص طور پر فروری 2020میں دلّی میں جو فسادات ہوئے ہیں اس کا منطقی اور تاریخی نتیجہ کس نئے ملک کی صورت میں برآمد ہوگا۔

بھارت میں 1971کے بعد مسلمانوں کو مسلسل دیوار سے لگایا گیا،  پہلے ان کا ووٹ پارٹیوں کو فتح دلوا سکتا تھا،  اسے نظر انداز کر دیا گیا،  حالانکہ ان کی آبادی بڑھ رہی تھی، مسلم ووٹروں میں اضافہ ہو رہا تھا، جمعیت علمائے ہند نے سیاست چھوڑ کر صرف فلاحی راستہ اختیار کرلیا، مسلمان مرکزی دھارے کی پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے لیکن کسی پارٹی نے انہیں عزت اور وقار نہیں دیا۔ آر ایس ایس اور بال ٹھاکرے کا فلسفہ غالب آتا رہا۔

اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے پاس اپنی بقا کے لیے کیا سیاسی راستہ رہ گیا ہے جمعیت علمائے ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا محمود مدنی نے دہلی کے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے ہیں اور کہا ہے ’یہ سرزمین ہماری ہے، ہماری رہے گی، ہمیں یہاں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا‘ ،اب ممکن ہے جمعیت علمائے ہند دوبارہ سیاست میں داخل ہو جائے۔

بھارت سرکار نے کپل مشرا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، بھارت کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ نہرو لیاقت پیکٹ 1950کے تحت آواز بلند کرے جس میں دونوں حکومتوں نے اتفاق کیا تھا کہ کسی بھی اقلیت کے خلاف ایسے بھیانک فسادات پر منارٹی انکوائری کمیٹیاں بٹھائی جائیں گی، اقلیتیں جہاں رہتی ہیں وہ اس ملک کا باقاعدہ حصہ ہیں، ان کا تحفظ ان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

کورونا وائرس نے جیسے چین کی اقتصادی ترقی روک دی ہے، اس وقت وہ صرف اس وبا سے بر سرپیکار ہے، اسی طرح مودی کی مسلم کش پالیسیوں نے پورے بھارت میں اقتصادی پیشرفت روک دی ہے۔

امریکہ سے تجارتی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے، وہ بھارتی ماہرین معیشت جو کہہ رہے تھے کہ بھارت ایک ہزار سال بعد پھر نشاۃ ثانیہ میں داخل ہو رہا ہے اور امریکہ جیسی سپر طاقت بن رہا ہے، وہ بھی اب سر گھٹنوں میں دیے بیٹھے ہیں کہ جہاں ایسے شدت پسند موجود ہیں وہاں معیشت کیسے آگے بڑھے گی۔

بھارتی میڈیا اور سنجیدہ حلقے دہلی پولیس کی نااہلی کو ان فسادات کے پھیلنے کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی اور امیت شا کی پالیسیاں دہلی میں ہی نہیں ملک کے دوسرے حصّوں میں بھی ایسے بلوئوں کا سبب بنیں گی۔ بی جے پی اپنے اور 2020کے ابتدائی مہینے بھارت کو کم ازکم چالیس سال پیچھے لے گئے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔